سوئٹزرلینڈ نے یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) میں ایک مقدمہ جیت لیا ہے جس کے تحت مسلمان والدین کو اپنے بچوں کو لازمی طور پر مخلوط سوئمنگ پولز میں بھیجنا پڑے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکام بچوں کو معاشرے سے بخوبی ہم آہنگ کرنے کی خاطر یہ حکم نامہ لاگو کرنے میں حق بجانب ہیں۔
ای ایچ سی آر نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے تحت مذہبی آزادی میں مداخلت ہوئی ہے، تاہم ججوں نے کہا کہ یہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔
یہ مسئلہ دو ترک نژاد سوئس شہریوں کی طرف سے اٹھایا گیا تھا جنہوں نے اپنی بچیوں کو تیراکی کی لازمی مخلوط مشقوں کے لیے بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
محکمۂ تعلیم کے حکام نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو بلغوت کی دہلیز پار کرنے کے بعد تیراکی کی ان لازمی مشقوں سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن یہ لڑکیاں ابھی اس عمر کو نہیں پہنچی ہیں۔
سنہ 2010 میں طویل تنازع کے بعد ان والدین کو بحیثیت والدین اپنی ذمہ داریوں کی ادائیدگی میں کوتاہی کی بنا پر تیرہ سو یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔
والدین کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ اس طرح کا رویہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی ہے۔ یورپی کنونشن کی یہ شق مذہب اور سوچ کی آزادی کو یقینی بناتی ہے۔
ای ایچ سی آر نے ایک بیان میں کہا کہ ان لڑکیوں کو لازمی مشقوں سے استثنی نہ دینا ان کے والدین کی مذہب کی آزادی سے انحراف ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی یاد دہانی بھی کرائی کہ متعلقہ قانون غیر ملکی طالبہ کو کسی بھی قسم کی معاشرتی اور سماجی تقسیم یا امتیاز سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کو اپنی ضروریات اور روایت کے تحت اپنے تعلیمی نظام کو استوار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ سکولوں نے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کچھ ناگزیر صورتوں میں استثنٰی دیا جانا بلاجواز نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ بچوں کی تعلیمی ضروریات اور مقامی رسم و روایات کے اندار ان کے معاشرے میں انضمام کی خاطر ان کے والدین کی خواہش کو کہ انھیں تیراکی کی مخلوط مشقوں میں شامل نہ کیا جائے ترجیح نہیں دی گئی۔