علی گڑھ(نامہ نگار)ملت بیداری مہم کمیٹی ( ایم بی ایم سی) کی قیادت میں کئی مسلم سماجی تنظیموں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا نے حقائق کو نظر انداز کرکے اے ایم یو کی مولاناآزاد لائبریری میں عبدا
للہ ویمنس کالج کی طالبات پر پابندی کے معاملے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔عبداللہ ویمنس کالج کا کیمپس اے ایم یو کے اصل کیمپس سے کافی فاصلہ پر واقع ہے اور وہاں طالبات کو تمام سہولیات مہیا کرائی گئی ہیں۔ یونیورسٹی میں ہر کورس کی طالبات کو مولانا آزاد لائبریری میں مطالعہ کی سہولت دستیاب ہے پھر بھی اے ایم یو کے وقار پر آزادیٔ نسواں کے نام پر حملہ کیا جا رہا ہے اور اس کی منفی شبیہہ پیش کی جارہی ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہارپروفیسر رضاء اللہ خاں نے مزمل منزل کامپلیکس میں واقع میڈیا سینٹر پر ملت بیداری مہم کمیٹی کی جانب سے طلب کی گئی مختلف سماجی تنظیموں کی مشترکہ جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو تعلیمِ نسواں کے تعلق سے بیدار ہے اور بچیوں کے لئے مناسب نظم بھی ہے۔ایم بی ایم سی کے سکریٹری جسیم محمد نے کہا کہ وائس چانسلر نے بار بار کہا کہ یونیورسٹی ویمنس کالج میں طالبات کو تمام ممکن سہولیات مہیا کرا رہی ہے لیکن اتنی معمولی سی بات پر جس طرح مرکزی وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل محترمہ اسمرتی ایرانی نے بیان دے کر اے ایم یو کے داخلی معاملہ میں دخل اندازی کی ہے وہ کسی بڑی سازش کی علامت ہے لہٰذا ان کے اس عمل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا سب سے زیادہ خیال ہے اور ہم کسی قیمت پر مسلم تہذیب پر حملہ کو برداشت نہیں کریں گے۔جسیم محمد نے کہا کہ بی جے پی ہمیشہ سے ہی اے ایم یو کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی مسلم مفادات کے تعلق سے سنجیدہ ہے تو پارلیامنٹ میں قانون بناکر اے ایم یو کو اقلیتی تعلیمی ادارہ کیوں قرار نہیں دیتی؟جامعہ اردو علی گڑھ کے او ایس ڈی فرحت علی خاں نے کہا کہ جس طرح اے ایم یو کے وائس چانسلر کے خلاف منفی تشہیر کی جا رہی ہے وہ نہ تو یونیورسٹی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی عوام کے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی مذکورہ معاملہ پر سنجیدہ ہیں تو وہ ویمنس کالج لائبریری میں سہولیات کے اضافہ کے لئے خصوصی گرانٹ کیوں نہیں جاری کر دیتیں؟ ڈاکٹر اے پی جے ابوالکلام سائنٹفک سوسائٹی کے صدراور اے ایم یو کورٹ کے رکن پروفیسر ہمایوں مرادنے کہا کہ اے ایم یو کو اے ایم یو ترمیمی ایکٹ۔۱۹۸۱کے تحت مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا اختیار دیاگیا ہے اور اے ایم یو کے وائس چانسلر نے صرف اے ایم یو کی تہذیب وروایات کا تحفظ کیا ہے یہاں کی طالبات کے ساتھ کسی قسم کی تفریق نہیں کی اے ایم یو کی ایکزیکیوٹو کونسل کے رکن ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا کہ اے ایم یو کو بہتر طور پر چلانے کی ذمہ د اری وائس چانسلر کی ہے اور انہیں طلبأو طالبات کے تحفظ اور ان کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے تمام سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اے ایم یو واحد ایساتعلیمی ادارہ ہے جہاںمذہبی، طبقاتی، صنفی، علاقائی وغیرہ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔میٹنگ کے آخر میں اتفاقِ رائے سے ایک تجویز پاس کرکے حکومتِ ہند کی مرکزی وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کے اے ایم یو کے داخلی معاملہ میں دخل اندازی کی بھر پور مذمت کی گئی اور حکومتِ ہند سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم تہذیب و ثقافت کو نشانہ بنانا بند کرے ۔جلسہ میں بڑی تعداد میں اساتذہ، دانشور اور سماجی کارکنان کے علاوہ خصوصی طور پر ڈاکٹر جی ایف صابری، ڈاکٹر فاطمہ، دلشاد، الیاس اور محمود انصاری موجود تھے۔