گوتم اور انشدا کی شادی رواں سال كوزیکوڈ سپورٹس کونسل ہال میں سپیشل میرج ایکٹ کے تحت آٹھ اکتوبر کو ہوئی
بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں کوزیکوڈ کے پالیری علاقے میں ایک مسلم لڑکی کی غیر مسلم سے شادی متنازع مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔
گوتم کے مطابق انھوں نے اپنی بچپن کی محبت انشدا کے ساتھ شادی کی ہے جو مسلمان ہیں۔
یہ شادی كوزیکوڈ سپورٹس کونسل ہال میں سپیشل میرج ایکٹ کے تحت آٹھ اکتوبر کو ہوئی۔
انشدا کے والد عزیز نے کیرالہ ہائی کورٹ میں اس شادی کے غیر قانونی قرار دیے جانے کے لیے درخواست دی تھی جسے عدالت نے خارج کر دیا۔
مقامی صحافی ارون لکمشن نے بتایا اس کے بعد گوتم کے گھر والوں نے بدھ کو اپنے گھر پر شادی کا جشن منانے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اس تقریب نے گوتم کے والد سدھاكرن اور ماں جالجا کے لیے نئی مشکلات پیدا کر دیں۔ انھیں دھمکیوں بھرے فون آنے لگے جن میں کیرالہ سے لے کر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک تک کے فون شامل تھے۔
ارون کے مطابق انھیں یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر دو ماہ کے اندر گوتم مسلمان نہ ہوئے تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر بھی گوتم کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔
مقامی سطح پر مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے بھی گوتم کے خاندان والوں کے ساتھ تعاون کا عہد کیا ہے
انھوں نے بتایا کہ ان پر نامعلوم افراد نے پتھر بھی پھینکے ہیں اور ان کے مکان کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے پیچھے شر پسند عناصر کا ہاتھ ہے جو علاقے میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
گوتم میکینکل انجینیئر ہیں اور بنگلور میں کام کر رہے تھے، جبکہ انشدا سنچری ڈینٹل کالج، كسارگڈ میں بی ڈي ایس کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
گوتم کے والدین اساتذہ ہیں اور انھوں نے انشدا کو بہو کے طور پر قبول کر لیا ہے، لیکن اس شادی سے مقامی مسلم برادری خوش نہیں ہے۔
گوتم نے بی بی سی ہندی سے بات چیت میں کہا ’ہر طرف سے ہمیں دھمکیاں مل رہی ہے۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعے فون کالیں آ رہی ہیں، جس سے پتہ نہیں چلتا ہے کہ فون کہاں سے آ رہا ہے۔ ہر دن جان سے مارنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔‘
دوسری طرف انشدا نے بتایا: ’ہم نے ایک دوسرے کے پیار میں کئی سال گزارنے کے بعد شادی کا فیصلہ کیا۔ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننے لگے تھے۔ گوتم کے والدین اور دوسرے رشتے دار مجھے اپنے گھر کی بیٹی مانتے ہیں، بہو نہیں۔ میں یہاں خود کو مکمل طور پر محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔‘
پولیس کا کہنا ہےکہ یہ شر پسند عناصر کا کام ہے
گوتم کے والد نے بتایا: ’بظاہر سب کچھ پرامن نظر آ رہا ہے لیکن کسی بھی دن کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔‘
ویسے گوتم ان دنوں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ انھوں نے کہا: ’میں اب بھی گھر سے باہر نہیں نکل پاتا۔ وہ پاگل لوگ ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان کا کیا رد عمل ہوگا۔‘
گوتم اور اس کے خاندان والوں کو تحفظ فراہم کرایا گیا ہے۔ مقامی سطح پر مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے بھی گوتم کے خاندان والوں کے ساتھ تعاون کا عہد کیا ہے۔
گوتم کو اب نئی نوکری کی تلاش ہے۔ بنگلور میں بھی گوتم اور انشدا کا کچھ لوگوں نے پیچھا کیا تھا۔ اس خوف کے سبب ہی گوتم اور انشدا اب ملک سے باہر جا کر بسنا چاہتے ہیں۔