سید منصورآغا،نئی دہلی
اتوار7جون کو مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کااجلاس لکھنو¿ میں منعقد ہوا۔ یہ ملت کی ایسی اکلوتی تنظیم ہے جس کا کوئی مرکزی سیکریٹریٹ نہیں۔ جس کے سارے قائد پارٹ ٹائم ہیں ۔ ہرکوئی کسی نہ کسی ذمہ داری کی ادائیگی میں مصروف ہے۔ البتہ سال میں دوچار مرتبہ مل بیٹھتے ہیں۔کچھ تقریریں ہوتی ہیں، کچھ قراردادیں منظور کی جاتی ہیں۔ پریس کانفرنس بھی ہوجاتی ہے۔ گاہے کوئی پریس رلیز اوراعلانیہ بھی جاری ہوجاتا ہے۔لیکن ظاہر ہے بورڈ کے اعلان کردہ اعلا مقاصد کے حصول اوربلند حوصلہ منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لئے یہ اقدامات کافی نہیں۔ ان سے نہ ملک کی سیاست کا دھارا بدل سکتا ہے اورنہ ملت کا مزاج۔
پارلی منٹ میں لے پالک بل کی پیش کشی کے دوران وزیرقانون کے یہ کہنے پر یہ یکساں سول کوڈ کی جانب ایک قدم ہے، ملت میں زبردست اضطراب پیدا ہوگیا تھا۔ اس پس منظر میں تحفظ شریعت کے اعلان شدہ مقصد کے ساتھ سنہ 1973ءمیں قاری محمد طیب ؒ کی سربراہی میں ممبئی میں اپنے تاریخی تاسیسی جلسہ سے لیکر لکھنو¿ میں عاملہ کے اس اجلاس تک گزشتہ 42،43سال میں ملّت کی نگاہیں بورڈ کی طرف لگی رہی ہیں۔ قاری صاحب مرحوم کے بعد مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ، قاضی مجاہد السلا م قاسمی ؒ اوراب مولانا سیدرابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی زیرصدارت بورڈ کے عام جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے ظاہرہوتاہے ایک کے بعد ایک تین اوربورڈ بن جانے کے باوجود ہرمسلک کے مسلمانان ہند آج بھی اصل بورڈ کو ہی پہنچانتے ہیں۔ مگرافسوس صورتحال سراب کی سی ہے ،جو بدلنے کا نام ہی نہیں لےتی ۔بورڈ نے جو گرانقدر ذمہ داری عنداللہ اپنے کاندھوں پر لی ہے، اس کی ادائیگی کی کوئی ایسی تدبیر ہوتی نظر نہیں آتی، جس سے سمجھا جاسکے کہ جدوجہد کا حق ادا ہوگیا۔ رہا نتیجہ تو اس کا کوئی انسان مکلف نہیں۔
عاملہ کا یہ اجلاس
بورڈ کی عاملہ کے اس اجلاس کی اخباری رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورڈ کے معزرارکان عاملہ ملک کی تازہ سیاسی صورتحال سے سخت متفکر ہیں۔ہونا بھی چاہئے۔ لیکن یہ صورتحال اچانک پیدانہیںہوگئی۔عاملہ کہنا بجا کہ موجودہ حکومت ملک کو سیکولرزم کے راستہ سے ہٹانے پرتلی ہوئی ہے۔لیکن اس مشاہدے کا ایک مطلب یہ ہوگا کہ 26مئی 2014سے پہلے تک جوحکومتیں تھیں وہ ملک کو سیکولرزم کے راستہ پرچلارہی تھیں۔ ہمارا ناچیز مشاہدہ اس سے مختلف ہے۔ مسلم مسائل اوران کے مخصوص مطالبات کے سلسلے میں سابقہ حکومتوں کا رویہ بھی عموماً موافقانہ نہیں رہا ہے۔ صدربورڈ محترم سیدرابع حسنی ندوی مد ظلہ العالی دینی تعلیمی بورڈکے بھی صدر ہیں۔ اس کے ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔سوریہ نمسکار ، سرسوتی وندناوغیرہ مشرکانہ عقائد اوراعمال کا اضافہ اگرچہ نیا ہے، لیکن تعلیمی نصاب میں آزادی کے بعد سے اس طرح کی چیزوں کی آمیزش ہوتی رہی ہے جن پر بالغ نظرمسلم قیادت روزاول سے ہی متفکررہی اوراپنے اعتراض درج کراتی رہی ہے۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جوکچھ موجودہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں کررہی ہیں وہ قابل گرفت نہیں ہے۔ لیکن مواخذہ حق بجانب ہونا چاہئے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو ان سرکاروں کے دور سے ہی چل رہا ہے جنہوں نے تغمہ تو سیکولرزم کا لگارکھا تھا مگرعملاً سرکاری کام کاج میںعملداری اکثریتی عقائد ونظریات اور مفادات کی ہی رہی ۔ ہماراہدف تنقید یہ سرکار یا وہ سرکار نہیں بلکہ وہ روش ہونی چاہئے جو سرکار کی مذہبی غیرجانبداری کے خلاف ہے۔ہمیں گہرائی سے یہ مطالعہ بھی کرنا چاہئے کہ موجودہ مسلم مخالف ماحول سازی میں کچھ اثراس سیاست کو تو نہیں جو گزشتہ زاید از ایک صدی سے ہم مسلم مسائل کے حل کے لئے کرتے رہے ہیں؟ اگرہے کیا اوراس کے تدارک کی سبیل کیا ہو؟ امت کو ایک بریکٹ میں رکھ کر صرف اس کی تحفظ کی دفاعی جدوجہد یا خیرامت کے اس اقدامی فریضہ پر توجہ جس کے ہم مکلف بنائے گئے اورفلاح انسانیت کا وہ مشن جس کی کچھ جھلک مولانا علی میاں کی تحریک ’پیام انسانیت ‘ میں ملتی ہے؟
عاملہ کے اس اجلاس کی ایک خبر میں کہا گیا ہے:’ عاملہ نے موجودہ حالات کے مقابلہ کے لئے طے کیا ہے کہ ایک بیداری تحریک شروع کی جائیگی۔اس اہم کام کے لئے ایک مجلس عمل تشکیل دی جائیگی، جو مذہب کی آزادی اورتبلیغ کے حقوق کا تحفظ، مسلم پرسنل لاءسے متعلق قوانین کی برقراری اورنصاب تعلیم میں ایک خاص مذہب کی تعلیم کوشامل کرنے، اورتعلیمی اداروں میں ایک خاص مذہب سے متعلق رسوم کی انجام دہی طلباءپر لازم کرنے کے خلاف عوامی رائے بنانے اوران اقدامات کو واپس لینے پر حکومت کو مجبورکے سلسلہ میں کوشش کرے۔‘(جدید خبر،دہلی 9 جون)
بیشک جن تشویشات کا اظہار اس تجویز میںکیا گیاہے، ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن تدارک کے لئے جو تدبیر تجویز ہوئی ہے اس میں سیاست زدگی کا غالب عنصرصاف نظر آتا ہے جو موجودہ حالات میں ملّی اورقومی مصالح کے منافی ہے۔اس مجلس عمل کی باگ ڈور ایک ایسی محترم شخصیت کے حوالے کی گئی ہے جس کے مزاج میں تندخوئی اورسیاست سمائی ہوئی ہے۔سیاسی مزاج کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ’ان الذین آمنو و عملوالصالحات‘ کی روح مفقود اور نمایاں ہونے کی فکرمقصود ہوجاتی ہے۔عموماً ایسی صورت میں اعمال صالحہ کی تہہ میں ناموری کا شوق درآتا ہے۔ موصوف محترم کی ہر پریس رلیز میں نام کے ساتھ ’مفکراسلام‘ کا لاحقہ ہم نے خودعرصہ تک دیکھا ہے۔ ملَّت کی جو شخص خدمت دین کے نام پر،اسلام کی راستے سے کرنا چاہے ،اس میں خاکساری اورانکساری مطلوب ہے ۔ خودنمائی راہ نہیں دکھاتی، منزل سے بھٹکاتی ہے۔
درست فیصلہ
گزشتہ ہفتہ’اٹالی‘ کے واقعہ پر اپنے اس کالم میں کچھ ذکر مسلم پرسنل لاءبورڈ کے جے پوراجلاس کا بھی آیا تھا اوریہ عرض کیا گیاتھا کہ اقتدارمیںکوئی بھی کیوں نہ ہو، سرکار تک اپنی بات پہنچانے اوراس سے رابطہ میں رہنے کی راہ کھلی رکھنی چاہئے جس کو بظاہرجے پور اجلاس میں اس وقت بند کردیا گیا جب وزیراعظم کے ایک قریبی ظفر سریش والا کی موجودگی پرناگواری کا اظہارہوا۔ اطمینان کی بات یہ ہے عاملہ کے اجلاس کے بعد یہ عندیہ ظاہر کیا گیا کہ ©’تمام مسائل پر وزیراعظم سے بھی ملاقات کی جائیگی۔ ….ہمارے لئے اچھوت کوئی نہیں۔‘ (انقلاب دہلی،8جون)
مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی ؒ کے دورصدارت میں مسلم مجلس مشاورت کے بعض اقدامات کاہمارا مشاہدہ ہے کہ ملّت کے جوکام ارباب حکومت سے براہ راست رابطے کے ذریعہ نکالے جاسکتے ہیں، وہ پریس بیانات اورسیاسی محاذآرائی کے ذریعہ نہیں نکلتے۔ اگرچہ مودی کا ماضی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہے، لیکن حال ہی میں کچھ اشارے ایسے ملے ہیں، جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ مشیت الہٰی کچھ اورچاہتی ہے۔ اٹالی میں مسلمانوں پر جوآفت ٹوٹ پڑی تھی، اس پر جس طرح حکومت کی مداخلت سے قابو پایا گیا ہے، جس طرح مسلم تشویش کے پیش نظریوگا کے مجوزہ عوامی مظاہرے سے ’سوریہ نمسکار©‘ کو ہٹایا گیا ہے، اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ مودی نے بین اقوامی دباﺅ میں ہی سہی، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی جو یقین دہانیاں باربار کرائی ہیں، اگر بورڈ ان کا استقبال کرنے میں فراخدلی دکھاتا تواس کا مجوزہ ملاقات پر بھی اچھا اثرپڑتا۔ مودی نے مسلمانوں کے دوگروپوں سے ملاقات کے دوران جو اشارے دئے ہیں وہ بھی توجہ طلب ہیں۔ بیشک چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں تاتاریوں کی تاریخ پر بھی ایک نظرڈال لینی چاہئے۔
روشن راہ کی طرف آئےے
جن مسائل کا ذکر عاملہ کے اجلاس میں نہیں آیا اورجن کا ذکرکرکے تشویش کا اظہار کیا گیا ،جن کے لئے مجلس عمل کی تشکیل کا اعلان ہوا، جس کی سیاست زدگی پر ہم نے اپنی گزارشات پیش کیں، ان کے بارے میں بیشک یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس کے علاوہ ان کا حل کیا ہے؟ ان مسائل کو موٹے طور پر دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول مذہبی آزادی۔ قانون شریعت کا تحفظ بھی اسی ذیل میں آجائیگا۔ دوئم تعلیمی اداروں میںاپنے بچوں کا مشرکانہ اعمال اورعقائد سے تحفظ۔پہلے دوسری شق لیجئے۔
ہم چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میںایسی تعلیم ہوجس کی زد ہمارے بچو ں کے عقائد پر نہ پڑے۔یہ تشویش بڑی حد تک حق بجانب ہے لیکن شکوے شکایات، سیاست اور مطالبات کا تاہنوز کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس لئے متبادل راہ تلاش کرنی ہوگی۔ ہندستان میں مسلم آبادی 18فیصد سے اوپرہے جب کہ عیسائی بمشکل 2.3 فیصد ہےں۔ اگرعیسائی مشنری کی جذبہ سے ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں معیاری اسکول اور کالج قائم کر سکتے ہیں، تومسلمان کیوں نہیں کرسکتے؟ آپ کرناٹک جائےں، تلنگانہ اور آندھراپریش جائیں ، کیرالہ جائیں، وہاں کے مسلمانوں نے تیس چالیس سال قبل تعلیمی ادارے قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔آج پورے جنوبی ہند میں مسلم انتظامیہ کے تعلیمی اداروں کا ایک مضبوط نظام قائم ہوگیا ہے ۔ ان اداروں کی صاف ستھری فضا سے مسلم ہی نہیں غیر مسلم طلبا بھی بڑی تعداد میں فیض پا رہے ہیں۔ان میں تعصب کی بھی بیخ کنی ہورہی ہے۔ ارباب مدارس معاف فرمائیں، وہ خود تو عصری تعلیم سے کنارہ کش رہنا چاہتے ہیں اورخواہش یہ کرتے ہیں کہ دیگر عصری ادارے ’سیکولر‘ اصولوں پرچلیں۔ شمالی ہند کے مسلمانوں کو صرف سیاست ہی کیوںسوجھتی ہے،اوروہ بھی مسلکی اورمذہبی بنیادوں پر؟ آخر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی سیادت کیوں نہیں سوجھتی؟بنگلور کی الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، شاہین گروپ ، حیدرآباد کی میسکو، ایم ایس گروپ اور کوچین کا مرکزثقافت السنیہ، بھٹکل میں مولانا علی میاں اکیڈمی وغیرہ کئی تعلیمی تحریکات ہیں، جو دست تعاون بڑھانے کوآمادہ ہیں۔کیرالہ کی تنظیم ’سنی یواجنا سنگم‘ نے یوپی میں ایک سو پرائمری اسکولوں کواپنے ہاتھ میں لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔دیوبندیوں اورندویوں کو اس کی فکر کیوں نہیں ہورہی ؟
ہمیں اس فرق کو سمجھنا چاہئے کہ تعلیمی تحریک اس دور میں صرف خیراتی کام نہیں بلکہ ایک انڈسٹری ہے۔ ہم نے جنوبی ہند کے تعلیمی اداروںمیں دیکھا ، یہاں تک کہ کے رحمٰن خاں کے ڈی پی ایس بنگلورمیں بھی، جہاں فیس معقول لیجاتی ہے لیکن اقلیتوں کے ضرورت مند بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے، وظائف دئے جاتے ہیں اور دینی ماحول میں اعلاترین جدید تعلیم دی جاتی ہے۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ شریعت کے تحفظ کے لئے ’مجلس عمل‘ کی مختصر مدتی تدبیر کے بجائے مناسب ہوگا کہ طویل مدتی تدبیر کرے اورہمہ گیر ’مجلس تعلیم‘ قائم کرے۔ جنوبی ہند کی تعلیمی این جی اوز اورشمالی ہند کے اہل ثروت کے درمیان تال میل بٹھائے تاکہ ہمارے بچے دیگر اداروں میں جانے کی قید سے آزاد ہوجائیں۔ ہم حکومت سے مطالبات بیشک کریں لیکن حسن تدبیر یہ ہوگی کہ خود اقدامی پوزیشن میں آجائیں اورملک وقوم کو تعلیم کا تحفہ دینے والے بن جائیں۔
اسی تدبیر سے اس مسئلہ کا حل بھی نکلے گا جس کا ذکر پہلے زمرے میں کیا گیا ہے۔ اگرنئی نسل میں دینی شعورپیدا ہو جائےگا اورمسلمانوں کو یہ احساس ہوجائےگاکہ ان کے عائلی معاملات عدالتوں میں نہیں بلکہ قضات سے حل ہوں اورقاضی بھی ایسے ہوں جو لوگوں سے خوش اخلاقی اورخداترسی کے ساتھ پیش آئیں، تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائیگا۔ رہے وہ لوگ جو جہنم کے گڈھے میں گرناہی چاہتے ہیں، ان کو آپ روک نہیں سکتے۔
مسلم پرسنل بورڈ جن مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے، ہم وثوق کے ساتھ پھر عرض کرتے ہیںکی سیاست کی گرداڑانے سے وہ حل نہیں ہونگے۔ موجودہ ماحول میں اگر آپ نے فرقہ ورانہ بنیادوں پر کوئی عوامی تحریک سیاسی انداز کی چھیڑی ،تو اس سے فائدہ کا امکان کم اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ البتہ آپ کے ایک دوقائدین کے انا کی تسکین ضرور ہو جائیگی کہ ان کے نام ، فوٹو اتنے اخباروں میں چھپ گئے، اتنے جلسوں نے انہوں نے خطاب کیا اوران میں حاضری اتنی اوراتنی رہی۔
وزیرقانون پر قانونی شکنجہ
دہلی کے وزیرقانون جتیندر سنگھ تومر قانون کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔ ان کو قانون کی فرضی ڈگری کے معاملے میں گرفتارکرلیا گیا ہے ۔عدالت نے ان کو پولیس کی تحویل میں دیدیا ہے۔ ان کی فرضی ڈگریوں کا قصہ فروری میں اسمبلی الیکشن کی نامزدگی کے وقت سے ہی چل رہا تھا۔ مگرسیاست دانوں کی کھال اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ ان کوکسی بات پر غیرت ہی نہیں آتی۔کیجریوال نے، جو اقداری سیاست کے دعویدار ہیں، ان کو تمام ترالزامات کے باوجود وزیربنادیا۔ بات عدالت میں پہنچ جانے پربھی نہ تو مسٹرتومر کو شرم آئی کہ استعفادیتے نہ وزیراعلا آسمان سے نیچے اترے کی زمینی حقائق کا پتہ چلاتے۔ ان چند ماہ میں سرکار کی ساکھ اس قدر گرگئی ہے کہ اس کا ایک وزیر جیل گیا اورکہیں کوئی احتجاج تک نہیں ہوا۔
وزیراعلاکو اتنی اخلاقی جرا¿ت دکھانی چاہئے تھی کہ ان سے کہتے کہ عدالت کا فیصلہ آنے تک عہدہ چھوڑ دو۔ بہرحال فی الحال مسٹرتومر چاردن کے لئے تھانے کی حوالات میں قید ہیں اورپولیس کی پوچھ تاچھ کا سامنا کررہے ہیں۔ جبکہ مسٹرکیجریوال اپنی سیاسی دھن میں مصروف ہیں۔جس کانتیجہ یہ ہورہا ہے کہ انتظامیہ ٹھپ ہوچکی ہے ۔عام آدمی حیران اورپریشان ہے۔ سڑکوں پر کوڑا کچرا عام ہے۔ سول خدمات کا حال خراب ہے ۔ عوام بڑی امنگوں اورامیدوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی کو سپورٹ کیا تھا۔ مگران کی آرزوو¿ں اورامنگوں پر اوس پڑگئی ہے۔ پارٹی قیادت کو سیاسی شعبدہ بازی سے فرصت نہیںکہ عوام کے مسائل پر توجہ ہو۔وزیراعلا کو اپنی روش پر از سرنو غورکرنا چاہئے۔ سیاست ضرورکریں مگرایسی نہیں کہ افسران بددل ہوجائیں اور ریاست کا نظام ہی ٹھپ پڑجائے۔سارانظام افسرشاہی کے بل بوتے ہی چلتا ہے۔ اس کو ذلیل کرکے سرکار کی نیا پارنہیں لگا کرتی۔ اس لئے وزیراعلا کو اپنی حکمت عملی پرازنوغورکرنا چاہئے تاکہ عوام کی بھلائی کے کاموں میں تیزی آئے۔
Cell: 9818678677