، لاکمیشن بھی خواتین کی نمائندگی سے محروم کیوں؟
نئی دہلی:خواتین کی ملک میں سب سے پرانی تنظیم بھارتی مہیلا فیڈریشن نے دنیا کے 22 مسلم ممالک کی طرح بھارت میں بھی ‘تین طلاق’ کو مممنوع قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور حکومت سے فریاد کی ہے کہ طلاق پرصرف مسلم پرسنل لاءبورڈ کا ہی نہیں بلکہ دیگر خواتین تنظیموں کا موقف بھی سنا جانا چاہئے ۔
فیڈریشن نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کو سیاست کر کے ایک قوم کو بدنام کرنے سے گریز کرنے کی وارننگ دی مطالبہ کیا کہ یکساں سول کوڈ پر عوامی بحث کرائی جائے نیز تمام مذاہب میں خواتین کو ان کا حق دیا جائے ۔ بھارتی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک اس فیڈریشن کی جنرل سکریٹری عینی راجہ اور مشہور سماجی کارکن ڈاکٹر نور ظہیر نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ مطالبات کئے ۔ پریس کانفرنس میں ‘تین طلاق’ بھگتنے والی گجرات کے احمد آباد کی پی ایچ ڈی کی طالبہ مبینہ قریشی اور لکھن¶ کی ممتاز فاطمہ نے اپنی آپ بیتی بھی سنائی کہ کس طرح انہیں قانونی جنگ لڑنی پڑی۔ محترمہ راجہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ تمام مذاہب کے پرسنل لاز میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے اور ان میں صنفی مساوات اور صنفی انصاف کا فقدان ہے ۔ لہذا یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئین کے تحت خواتین کے لئے برابری کے حقوق کو یقینی بنائے چاہے ان خواتین کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا برادری سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ان کی تنظیم ‘تین طلاق’ کو ممنوع کرنے کے حق میں ہے ۔ ”جب دنیا کے 22 مسلم ممالک میں یہ ممنوع ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں ہو سکتا”۔
انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل بورڈ مسلم معاشرے کا تنہا نمائندگی نہیں کرتا۔ اس میں مسلم خواتین کی نمائندگی نہیں کے برابر ہے ۔اس لئے بورڈ مسلم خواتین کی آواز کو مسلم معاشرے کی اجتماعی آواز نہیں سمجھنا چاہتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں حکومت اور سپریم کورٹ صرف بورڈ کی بات کیوں سنتا ہے اسے دیگر خواتین تنظیموں کی بات سننی چاہئے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لا کمیشن میں بھی خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے جس نے [؟][؟]تمام خواتین تنظیموں سے بات چیت کئے بغیر یکساں سول کوڈ پر سوالنامے تیار کر لئے ۔ انہوں نے کہا کہ سوال صرف ‘تین طلاق’ کا نہیں بلکہ مسلم خواتین کے تمام حقوق کا ہے جس سے وہ محروم کی جا رہی ہیں چاہے وہ جائیداد کا حق ہو یا مہر کا معاملہ ہو. انہوں نے کہا کہ تین طلاق کے معاملے کو یکساں سول کوڈ سے جوڑنا ٹھیک نہیں اور الیکشن کو دیکھتے ہوئے مسلم معاشرے کو بدنام کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے ۔