علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بیسویں صدی کےاوائل سے بھارت کے تعلیمی شعبے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے
بھارت کی سپریم کورٹ کی ایک آئینی بینچ نے یہ واضح کیا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کو مذہبی اقلیتی ادارہ قرار دینے کا اختیار صرف مرکزی حکومت کو ہے۔
عدالت عظمٰی کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مرکزی حکومت کی جانب سے یہ واضح اشارہ مل رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کےدو اہم اداروں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے جا رہی ہے۔
بھارت کے آئین کے مطابق مذہبی اقلیتی اداروں کےضوابط اور ان کے انتظام کےسلسلے میں اقلیتوں کو بعض خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان اختیارات کےتحت ایسےاداروں کے فیصلوں میں حکومت کا دخل نہیں ہوتا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے 20ویں صدی کےاوائل سے بھارت کے تعلیمی شعبے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے اگرچہ مسلمانوں نے قائم کیے تھے لیکن وقت گزرنے کےساتھ یہ مرکزی یونیورسٹیز میں تبدیل ہو گئیں۔
ان یونیورسٹیز کےاربوں روپے کے اخراجات کا بار بھارت کی حکومت کے سر رہا ہے۔
بھارت کے مسلمان بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلمان تعلیم اور معیشت میں دلتوں کی ہی طرح کافی پيچھے ہیں۔ حکومت نے دلتوں قبائل اور پسماندہ ہندوؤں کو اوپر لانے کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں تقریبا 50 فیصد کوٹے دے رکھا ہے۔
اب جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ ان یونیورسٹیز کا اقلیتی کردار ختم کر رہی ہے
اس کےبر عکس مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی پسماندگی سےنکالنے کے لیے حکومت نے اس طرح کی کوئی سکیم یا ترغیبی پروگرام شروع نہیں کیا۔ یہی نہیں ہندوؤں کو ریزرویشن دینےکی پالیسی سے پہلے ہی پسماندگی کا شکار مسلمانوں کو تعلیم اور معیشت میں مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی ملک کی دو واحد ایسی یونیورسٹیز ہیں جنھیں اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کیا گیا تھا اور جہاں مختلف کورسز میں مسلمانوں کو 50 فیصد کوٹے کا نظام رائج ہے۔
اگرچہ ان دونوں اداروں پر مسلمانوں کے نام نہاد اعلیٰ ذات کے متمول طبقے کا غلبہ رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہزاروں غریب اور پسماندہ مسلمان ان دونوں یونیورسٹیز کے کورسز خاص طور سے میڈیکل، انجینیئرنگ، قانون، مینیجمنٹ اور دوسرے پیشہ ورانہ کورسز سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔
بھارت میں سرکاری اور نجی ملکیت کی تقریبا ساڑھے سات سو یونیورسٹیز واقع ہیں اور ان یونیورسٹیز میں اوسطاً 95 فیصد طلبہ ہندو ہوتے ہیں۔ پورے بھارت میں صرف علی گڑھ اور جامعہ ملیّہ یونیورسٹیز ایسی ہیں جہاں مسلم طلبہ کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ دونوں یونیورسٹیز بھارت کی مذہبی منافرت کی سیاست کا محور رہی ہیں۔ یہ کئی عشروں سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے راڈار پر ہیں۔ اب جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ ان یونیورسٹیز کا اقلیتی کردار ختم کر رہی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورجامعہ ملیہ یونیورسٹی ملک کی دو واحد ایسی یونیورسٹیز ہیں جنہیں اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کیا گیا تھا
قانونی اعتبار سے بھی یہ ایک جائز فیصلہ ہوگا کیونکہ مذہبی اقلیتی ادارہ چلانے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں ہو سکتی، لیکن مبصرین اس فیصلے کو ریاست کی ذمہ داری سے زیادہ حکمراں جماعت کی ہندو نظریاتی سوچ سے منسوب کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کو ان دونوں یونیورسٹیز کی سیاست سے باہر آنا ہوگا۔ جمہوریت پسند دانشوروں اور مسلمانوں میں یہ تصور عام ہے کا بھارت کا ایک طبقہ مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری اور غریب بنائے رکھنے کے لیے انھیں تعلیم سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔
ملک کے 16 کروڑ مسلمانوں کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ ان کی تعلیم کا حل بےکار کی جذباتی سیاست میں نہیں ہے۔ انھیں اپنے سیاسی رہنماؤں سے یہ پو چھنا ہوگا کہ ان کے شہر، قصبے، خطے اور ان کی آبادیوں میں حکومت اچھے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کیوں نہیں کھولتی ؟
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی بقا صرف جدید تعلیم پر منحصر ہے۔ انھیں مدرسوں کی نہیں جدید یونیوورسٹیز چاہئیں۔
انھیں مراعات کے لیے نہیں تعلیمی برابری کے لیے جد وجہد کرنی ہوگی۔انھیں اس شرمناک حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تاریخ کی اس منزل پر بھارت کے مسلمان تعلیم کی اسی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں سر سید احمد خان نےسوا سو برس پہلے انھیں چھوڑا تھا۔