لندن ۔ اسرائیل میں آج کنیسٹ [پارلیمنٹ] کے 20 ویں چنائو کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ انتخابی عمل میں درجنوں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور سیکڑوں سیاسی شعبدہ باز حصہ لے رہیں۔ اسرائیل کے ان انتخابات کی بہت سی دلچسپ باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ موجودہ و
زیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو اپنے حریف سیاسی اتحاد ’’صہیونیت یونین‘‘ کا سامنا ہے جس کے سربراہ ’’اسحاق ہرٹسوگ‘‘ کا خاندانی پس منظر فلسطینی اور مصری ہے۔ ہرٹسوگ کی والدہ ’اورا‘ نے سنہ 1924 ء میں مصر کے شہر اسماعیلیہ میں آنکھ کھولی۔ وہ اب 91 برس کی ہیں اور بہ قید حیات ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے نیتن یاھو کے سب سے طاقت ور حریف’’اسحاق ہرٹسوگ‘‘ کی سیاسی زندگی اور ان کے خاندانی پس منظر پرایک تفصیل میں روشنی ڈالی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی تحقیق کے مطابق ہرٹسوگ کے نانا سیمشا امباش 1892ء میں فلسطین کے شہر یافا میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1915ء میں عثمانی ترکوں نے فلسطین سے پندرہ ہزار یہودیوں کو بے دخل کیا تو امباش اور اس کا خاندان بھی یافا چھوڑنے والوں میں شامل تھا۔ خود سیمشا امباش بہ یک وقت روسی، لیتوانی اور پولش نژاد تھا۔ وہ ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نامور وکیل بھی تھا۔
ہرٹسوگ کی والدہ ’اورا‘ مصرمیں پیدا ہوئیں اور وہیں پراپنی تعلیم بھی مکمل کی۔ فرانسیسی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے ہونے کے ساتھ ساتھ ’اورا‘ نے مصری عربی لہجے میں بھی پختگی حاصل کی۔ سنہ 1947ء میں اس کی شادی ایک فلسطینی نژاد یہودی حاییم ہرٹسوگ سے ہوئی۔ حائیم اسرائیل کے نامور سفارت کار، فوجی افسر، وکیل ، سیاست دان اور ملک کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ سنہ 1983ء سے 1993ء تک وہ دس سال تک اسرائیل کے صدر رہے۔ ان کے چار بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک اسرائیل کے موجودہ شدت پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی گلی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ موصوف اسحاق ہرٹسوگ سنہ 1960 میں تل ابیب میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام دادا کے نام پر رکھا گیا۔ ہرٹسوگ کے دادا کا بھی یہی نام بتایا جاتا ہے۔
ہرٹسوگ کے دیگر بھائیوں میں ’’یوعل‘‘ یا’’گویل‘‘ ایک کاروباری شخصیت ہیں، جو ان دنوں اسرائیلی سیاسی اکھاڑے سے ہزاروں میل دور جنیوا میں مقیم ہیں۔ یوعل کا ماضی بھی داغ دار ہے اور ان پر اپنے ایک سوڈانی، ترکی پارٹنر کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام عاید کیا گیا جس پر وہ جیل بھی جا چکے ہیں۔
دوسرے بھائی کا نام مائیکل ہے جو اس وقت اسرائیلی فوج کے میجر جنرل کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ہرٹسوگ کی چھوٹی اکلوتی ہمیشرہ رونیٹ ماہر نفسیات ہیں اور تل ابیب میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہ رہی ہیں۔
’’کھلونا‘‘ اور تنگ منہ والا
اسرائیل میں اسحاق ہرٹسوگ کوئی گمنام شخص نہیں بلکہ کئی سال سے وہ وکالت اور سیاست کے میدان میں ایک ساتھ مصروف عمل رہےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اسرائیل کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ لیکن جب خود ہرٹسوگ ایک بچہ تھا تب اسے کن کن الفاظ اور القابات سے پکارا جاتا تھا وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس وقت اسرائیل میں ہرٹسوگ کو ’’بوجی‘‘ کے لقب سے بھی پکاراجاتا ہے۔ اسحاق کے والد شمالی آئر لینڈ میں 1918ء کو پیدا ہوئے اور سنہ 1935ء میں وہ فلسطین منتقل ہوگئے تھے جہاں سنہ 1997ء میں بیت المقدس میں وفات پائی۔ ہرٹسوگ کے والد نے ایک بھرپور اور مصروف ترین زندگی گذاری۔ وہ وکلات، سیاست کے ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی کرتے رہے۔ حتیٰ کہ فوج میں جنرل کے عہدے تک خدمات انجام دیں اور آخر کار انہیں اسرائیل کا صدر منتخب کیا گیا۔
اسحاق ہرٹسوگ کےایک سوتیلے چچا ابا ایبان نے اپنے اہلیہ کےساتھ مل کر اسرائیل میں کینسرکے امراض کےعلاج کے لیے ایک تنظیم قائم کی۔ وہ خود بھی سنہ 1966ء کے بعد آٹھ سال تک اسرائیل کے وزیرخارجہ رہے۔ ان کا شمار لیبر پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
ہرٹسوگ کے دادا ایک مشہور یہودی ربی تھے جن کا تعلق آئرلینڈ کے اشکنزئی یہودی فرقے سے تھا۔ سنہ 1959ء میں انہیں اسرائیل کا چیف ربی قرار دیا گیا۔ ایک دوسرے چچا یعقوب سابق وزائے اعظم لیوی اشکول اور گولڈا مائر کے پرنسپل سیکرٹری رہے۔ یوں اسحاق ہرٹسوگ کا پورا خاندان سیاست اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہا۔ بچپن میں اسحاق ہرٹسوگ کو اس کی والدہ ’’کھلونا‘‘ کہا کرتی تھی۔ اگرچہ آج ان کا شمار ملک کے دبنگ سیاست دانوں میں ہوتا ہے اور ان کا کھیل سیاست ہے تاہم سیاسی سوجھ بوجھ میں وہ ابھی تک نیتن یاھو کے مقابلے میں ’بچہ‘ ہی ہیں۔
چونکہ بچپن میں کمزور جسم ہونے کی وجہ سے ان کی والدہ انہیں لاڈ سے ’’کھلونا‘‘ اور ’’تنگ منہ والا‘‘ کہا کرتی تھی۔ والدہ کا خیال تھا کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کرزیادہ سے زیادہ پولیس میں بھرتی ہوگا یا کسی بنک میں ملازم ہوجائے گا لیکن اس نے والدہ کا یہ خیال غلط ثابت کردکھایا اور چھوٹے منہ کے باوجود’بڑی بات‘ کہنے کی ہمت پیدا کی۔ آج وہ اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کی انتخابی جیت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن کران کے سامنے کھڑے ہیں۔
سیاسی قد کاٹھ
اسرائیلی سیاست پرنظررکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اسحاق ہرٹسوگ عربی، انگریزی اور عبرانی میں بہ یک وقت مہارت رکھتے ہیں۔ تاجر برادری میں ان کا حلقہ احباب نیتن یاھو سے زیادہ وسیع ہے۔ سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں بھی وہ ماہر ہیں۔’’صہیونیت یونین‘‘ جیسے اتحاد کی تشکیل ان کی سیاسی بالغ نظری کی زندہ دلیل ہے۔ ان کے ساتھ اس اتحاد میں سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی کی جماعت بھی شامل ہے۔ اگراس اتحاد کو خاطر خواہ ووٹ ملتے ہیں تو نیتن یاھو کی لیکوڈ پارٹی کا صفایا ہوسکتا ہے۔
اسحاق ہرٹسوگ گیارہ سال تک لیبر پارٹی کے نائب صدر رہے۔ مجموعی طورپر انہوں نے اس پارٹی کے ساتھ تیس سال گذارے۔ پچھلے سال نومبر میں انہیں لیبر پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اسحاق ہرٹسوگ کی اہلیہ میشل پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ میشل کے والد اسرائیل میں ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ کے ایک سابق رکن تھے۔ ان کے تین بچے ہیں۔
یہ بات قارئین کی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اسحاق ہرٹسوگ جیسے نامور سیاست دان کے تینوں بیٹوں، ان کے چچائوں اور دیگرمقربین کی انٹرنیٹ پر کوئی تصویر دستیاب نہیں ہوسکی ہے۔ شہرت کے باوجودہ ان کے خاندان کے بیشتر افراد گوشہ گمنامی میں ہیں۔