محمد عصام کے والد ابھی تک انصاف کی تلاش میں ہیں
اس وقت جب یورپ پناہ گزینوں کے بحران سے گزر رہا ہے، مصر کے سب سے بڑے کشتی کے حادثات میں سے ایک میں بچنے والے اور اس میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا حادثے کے ایک سال بعد بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا تھا۔
اس حادثے میں تقریباً 500 افراد ہلاک ہوئے تھے اور صرف 11 ہی زندہ بچ پائے تھے۔ حادثے میں بچ جانے والے دو افراد کے مطابق سمگلروں نے مصر کے علاقے دمیاط سے چلنے والی کشتی کو مالٹا کے ساحل کے قریب جان بوجھ کر ڈبو دیا تھا۔
کشتی میں سوار اکثر افراد کا تعلق شام اور فلسطین سے تھا لیکن ان میں سے 80 مصری باشندے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ 18 سال سے کم عمر بچوں میں 12 کا تعلق قاہرہ کے ایک نواحی گاؤں سے تھا۔
ان میں سے ایک محمد عصام تھے اور کے والد عصام احمد ابھی تک انصاف کی تلاش میں ہیں۔
لاپتہ افراد کے خاندان مصر کے پراسیکیوٹر جنرل سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف مجرمانہ ذمہ داری کا ایک نیا مقدمہ دائر کیا جائے۔
یہ تیسرا مقدمہ ہو گا۔ کچھ لواحقین کا خیال ہے کہ ان کے بچے زندہ ہیں اور مصری یا اطالوی حکام کی حراست میں ہیں۔
ہر کوئی اپنے مستقبل کے متعلق سوچتا ہے اور میں بھی وہی کر رہا ہوں۔ میں اپنے خاندان کے لیے اچھا مستقبل بنانا چاہتا ہوں
مصری نوجوان
وہ کہتے ہیں کہ وہ اس وقت تک امید نہیں چھوڑیں گے جب تک ان کے سامنے یہ نہیں ثابت کیا جاتا کہ ہوا کیا تھا۔
اس گاؤں سے کامیابی کے ساتھ تقریباً 3000 افراد اٹلی کے شہر تورِن گئے ہیں۔
یہاں دیہاتی بہت غریب ہیں جن کے پاس تھوڑی زمین اور چھوٹی دکانیں ہیں۔ نوجوان کہتے ہیں کہ یہاں کوئی مستقبل نہیں اور مصر میں ہر نئی حکومت آنے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس گاؤں میں ہر ایک کو پتہ ہے کہ اطالوی قانون کے مطابق اگر 18 سال سے کم عمر کوئی نوجوان پکڑا جاتا ہے تو وہ اسے واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔
گذشتہ برس کے حادثے تک اس گاؤں سے ہر سال 100 کے قریب افراد باہر جانے کی کوشش کرتے تھے۔
لوگوں کو باہر بھیجنے والے دلال یا مقامی زبان میں مندوب کہلانے والے کو علاقے میں ہر کوئی جانتا ہے۔ وہ لوگ اکٹھے کرتا ہے اور ساحل پر سمگلوں کے پاس بھیج دیتا ہے۔ اسے اس سے حصہ ملتا ہے۔
لیکن گذشتہ ایک برس سے وہ گاؤں والوں کے ہمراہ 12 لاپتہ بچوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو مصر کے دوسرے علاقوں کے ان افراد کا تعاون بھی حاصل ہے جن کے عزیز اس حادثے کا شکار ہوئے تھے۔
مصر سے بیرون ممالک کا سفر کرنے والے اکثر خطرناک سمندری راستہ اختیار کرتے ہیں
الجہور الصغریٰ ملک کے ان دیہاتوں میں سے ایک ہے جہاں سے نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جاتی ہے۔
سلامہ عبدالکریم 23 برس بعد تورِن سے واپس لوٹے ہیں اور الجہور الصغریٰ کے نواح میں اپنے خاندان کے لیے ایک بڑا گھر بنوا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جو بھی بچے یہاں سے سفر پر نکلے ہیں انھوں نے گاؤں میں کاروبار بڑھانے میں بہت مدد کی ہے۔‘
اور یہی وہ خواب ہے جو مصری نوجوانوں کو سفر کی طرف کھینچتا ہے۔ وہ بھی اسی خیال کے دام میں آ جاتے ہیں جو اپنے رشتہ دار کھو چکے ہیں۔
ایک نوجوان کا کزن گذشتہ برس کشتی میں جان گنوا بیٹھا تھا، اب وہ خود اس سفر پر نکلنے کے لیے تیار ہے۔
’ہر کوئی اپنے مستقبل کے متعلق سوچتا ہے اور میں بھی وہی کر رہا ہوں۔ میں اپنے خاندان کے لیے اچھا مستقبل بنانا چاہتا ہوں۔‘