عام طور پر لوگ موجودہ دور کو جمہوریت ،سیکولرزم ،حق و انصاف اور انسانی حقوق کے توسط سے جانتے ہیں ۔گویا یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آج کی دنیامیں ناانصافی ،ظلم و جبر اور حقوق انسانی کو خاص مقام حاصل ہے اور آج کوئی شخص اور ملک یا تنظیم ناانصافی ،حقوق انسانی کی پامالی کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔پر حالات واقعات اور ہر روز اخبارات کے خونی صفحات یا نیوز چینل کی بریکنگ نیوز میں ہم ایسی بے شمار خب
ریں پڑھتے سنتے اور دیکھتے ہیں جس کی بربریت اور خون آشامی سے چنگیز اور ہلاکو بھی شرما جائیں ۔ ابھی دو روز قبل مصر کی فوجی عدالت جس کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے نے ایسا ہی ایک بے مثال کارنامہ انجام دیا !بے مثال کارنامہ سے چونکیں نہیں ۔ایک دن میں اور صرف ایک گھنٹہ کی عدالتی کارروائی میں جس طرح مصری عدالت نے تھوک کے بھائو سے سزائے موت کا اعلان کیا ہے۔اسے بے مثال کارنامہ ہی کہیں گے ۔کسی شاعر نے کہا بھی ہے کہ بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ادھر کئی سالوں سے دنیا میں کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہورہے ہیں جس سے انصاف اور حقوق انسانی کی کھلی توہین ہورہی ہے ۔لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ظالم اور سفاک لوگ جس میں اکثریت حکمراں طبقہ کی ہے کی طرف سے عدل و انصاف دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں جس سے عوام الناس کے دل و دماغ سے عدل و انصاف اور حقوق انسانی کا لفظ ایک خوفناک حقیقت کی مانند ہو گیا ہے۔ابھی کچھ ماہ قبل ہی بنگلہ دیش میں ایک ایسے ہی عدالتی فیصلہ میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائد عبد القادر ملا کو پھانسی کی سزا دیدی گئی ۔انہیں جس نام نہاد ٹریبونل کی پہل اور تفتیش پر پھانسی کی سزا دی گئی وہ دنیا کے حقوق انسانی کی تنظیموں کی نظر میں مشکوک ہے ۔لیکن انہیں پھانسی دیدی گئی اور دنیا میں کہیں کوئی پتہ نہیں ہلا دنیا کی ڈیڑھ ارب کے قریب کی مسلم امہ پر موت کا سناٹا چھایا رہا ۔ستاون سے زیادہ مسلم ملکوں میں سے کسی کی طرف سے کوئی احتجاج درج نہیں کیا گیا ۔
عرب دنیا جو کہ پچھلی نصف صدی سے اسرائیل اور اس کے حلیفوں کی یرغمال بنی ہوئی اس کے بیشتر ملکوں پر ڈکٹیٹر حکومت کررہے ہیں ۔کسی کو امریکہ اور کسی کو روس کی حمایت حاصل ہے ۔عرب ملکوں میں عرب اسپرنگ کے نام سے تحریک نے کئی ملکوں سے ڈکٹیٹر وں کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور وہاں عوام کی پسندیدہ حکومت ان کے ووٹوں سے چن کر آگئی ۔اسی میں مصر بھی ہے ۔مصر وہ ملک ہے جہاں احیائے اسلام کی سب سے پہلی تحریک اخوان المسلمون اپنی مضبوط تنظیمی ڈھانچے کی صورت میں موجود ہے۔لہذا جب اسمامحفوظ کی تحریک پربرپا ہوئی عوامی انقلاب سے حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ رکھنے ،مصر ی عوام کی خدمت نے اخوان المسلمون کو الیکشن میں عوام نے بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی ۔اخوان کے ساتھ سلفی تنظیم النور بھی تھی جسے عوام نے دوسری سب سے پارٹی کے طور پر منتخب کیا ۔لیکن عوامی طور پر منتخب اخوان کی مرسی حکومت کو نام نہاد سیکولر طبقہ نے قبول نہیں کیا ۔وہ پہلے دن سے ہی ان کے خلاف سازش میں مصروف عمل رہے ۔ملک میں جعلی پانی گیس اور غذائی اجناس کی قلت پیدا کی گئی اور ایک جعلی عوامی تحریک کھڑی کی گئی جس میں لاکھ دو لاکھ لوگوں کو کرایہ پر اکٹھا کیا گیا ۔جس طرح ہمارے ملک میں بی جے پی (مودی) کی ریلی میں کرایہ کی بھیر اکٹھا کی جاتی ہے ۔فوجی ٹولے نے جسے پچھلی کئی دہائیوں سے حکومت میں شامل رہنے کا چسکہ لگا ہوا تھا ۔اس کے جنرل السیسی نے نہایت ظالمانہ اور باغیانہ انداز سے مرسی کی حکومت برخواست کرکے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کردئے ۔تعجب اس امرپر ہے کہ اس فوجی ٹولے کی حمایت خود کو مذہبی جماعت کہنے والی النور جماعت نے بھی اس بغاوت میں شامل ہو کر کی ۔خبروں میں یہ بات بھی آئی کہ برخواستگی سے قبل صدر مرسی سے ایک عرب ملک نے سودا کرنے کی بھی کوشش کی کہ وہ حکومت سے دست بردار ہو جائیں اور مذکورہ ملک کے پسندیدہ افراد کو حکومت میں شامل کرلیں ۔ مذکورہ ملک نے مصری فوجیوں کی اس بربریت کو بھی حق بجانب قرار دیا جس میں اس نے مساجد کو جلا ڈالا اور نہتے مظاہرین کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا جس کی تصاویر اخبار ات اور سوشل میڈیا میں آچکی ہیں ۔چند لاکھ کرائے کے لوگوں سے فرضی احتجاجی مظاہرہ کراکر ایک عوامی طور پر منتخب حکومت کا خاتمہ کردینے والے لو گوں نے پچھلے ایک سال سے لاکھوں عوام کی جانب سے ہر گلی اور ہر چوراہے پر کئے جانے والے مظاہرہ کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ۔
دنیا کے انصاف پسندوں اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کی جانب سے برتی جانے والی اسی خاموشی کا انجام یہ ہے کہ اب وہاں کی عدالت تھوک کے بھائو سے اخوان کے ارکان کو سزائے موت سنا رہی ہے ۔ہر چند کہ یہ سزائیں بقول فوجی حکومت کے عدالت سے سنائی جارہی ہیں ۔لیکن کوئی بھی باضمیر اس کو عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کریگا ۔کیوں کہ ایک گھنٹہ میں لوگوں کو بغیر کسی معیاری عدالتی کارروائی کے سزائے موت سنانا یہ کہیں سے کہیں تک ثابت ہی نہیں کرتا کہ انصاف کیا گیا
ہے ۔ امن ،انصاف،جمہوریت اور حقوق انسانی کی علمبردار قوتیں کہاں ہیں ؟ان کی طرف سے کوئی مضبوط آواز کیوں نہیں اٹھ رہی ہے ؟کیوں امریکہ خاموش ہے جہاں سے ہمیشہ حقوق انسانی کا درس ساری دنیا کو دیا جاتا ہے ۔سعودی عرب کو یہ کھلا ظلم کیوں نہیں دکھ رہا ۔کیا ان کا مقصد صرف خاندانی حکومت کے تحفظ کیلئے بڑی قوتوں اور اسرائیل کی درپردہ حمایت ہی ان کا مقصد ہے ۔کیا انہوں نے صرف حاجیوں کو پانی پلادینا اور کھانا کھلا دینا ہی اس تنظیم کے برابر سمجھ لیا ہے جن کی ساری تگ ودو صرف اس لئے ہے کہ دنیا میں اللہ کا دین غالب ہو جائے ۔(یو این این )