سپریم کورٹ آف پاکستان نے مظاہرین اور حکومت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کر دی اور قیادت سے مشاورت کر کے رپورٹ جمع کرانے کے لیے وکلاء کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدامات اور راستوں کی بندش سے متعلق کیس کی سماعت کی جس دوران اٹارنی جنرل نے شاہراہ دستور کی بندش سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل احمد اویس نے موقف اپنایا کہ اُن کے موکل کا موقف ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات دھاندلی زد
ہ تھے جس پر جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ دھاندلی زدہ ہونے کا تعین کون کرے گا؟
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھاکہ عدالت کی مداخلت سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایک فریق شکایت کنندہ ہے اور دوسرا مبینہ ملزم، کسی ادارے کو تو درمیان میں آنا پڑے گا، بطور حتمی ثالث سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
اُنہوں نے کہاکہ ازخود نوٹس لینے کا کہا گیا لیکن اس معاملے پر درخواستیں کافی آ چکی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے بڑی بات کیا ہو گی کہ سرکاری عمارتوں کو بھی خطرہ ہے، اُن کی گاڑی پر پتھراﺅ کیا گیا۔ اگر یہی صورتحال چلتی رہی تو عدالت کس لیے ہے؟ کیا یہ اجازت ملی تھی کہ مظاہرین پی ٹی وی کی عمارت میں گھس جائیں، اس وقت ملک کی سالمیت خطرے میں ہے، جو بھی ذمہ دار ہو گا بالآخر جوابدہ ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین اپنی قیادت سے ہدایات لے لیں، رضا مندی کی صورت میں تجاویز دی جائیں جن کا آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جائزہ لیا جائے گا اور مجوزہ حل کی کوشش کریں گے۔ فاضل عدالت نے سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالتی پیشکش پر جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی کام نہیں، قانون کی کوئی بات ہی نہیں، ثالثی یاضمانت کی بجائے براہ راست حکم دیا جا سکتا ہے، سکرپٹ پر اچھی طرح عمل کیا گیا، ہر جگہ فوج موجود ہے۔