ایم ودودساجد
پچھلے دنوں میں نے کچھ متمول افرادکے ایک وفدکے ساتھ مظفر نگر اور اس کے اطراف میں قائم ’پناہ گزیں‘کیمپوں کا دورہ کیا تھا۔اس کی تفصیل قارئین کی نذر کرنے میں ‘میں نے عمداً تاخیر سے کام لیا۔ دورہ کے بعد کئی حقائق سامنے آئے ہیں۔ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا خوب ذکر بار بار ہوچکا ہے۔لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کا ذکر بس نجی محفلوں میں یا مختلف وفود کے سامنے متاثرین نے دبی زبان میں کیا ہے۔یہ درست ہے کہ مظفر نگر‘شاملی‘کیرانہ اور کاندھلہ کے درجنوں چھوٹے بڑے گاؤوں اور قصبات میں مسلمانوں پرایک ایسی قیامت گزرگئی کہ جسے چھوٹی موٹی قیامت کہنا مناسب نہیں ہے۔یہ بھی درست ہے کہ مغربی یوپی میں شرپسندوں اور خاص طورپربی جے پی‘بجرنگ دل‘ہندو واہنی اور اسی قبیل کی دوسری جماعتوں نے بھی آگ میں گھی ڈال کر صورت حال کو دگر گوں کردیا ہے۔لیکن اسی کے ساتھ اس کا بھی بخوبی اندازہ ہوا کہ یوپی انتظامیہ اور خاص طورپرپولس نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا یا تو اندازہ نہیں کیا یا جان بوجھ کر حالات کو خراب ہونے دیا۔مغربی یوپی میں پولس میں ایک خاص طبقہ کی بہتات ہے۔اسی طبقہ نے کہا جاتا ہے کہ انتظامیہ اور خاص طورپر مظفر نگر کے سابق ڈی ایم کے احکامات کو ہوا میں اڑادیا۔لیکن ہائی کورٹ میں اسی نکتہ پر یوپی حکومت کے خلاف سماعت ہورہی ہے۔رٹ دائر کرنے والوں کو اس کی تو فکر نہ ہوئی کہ شرپسندوں نے کتنے بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن انہوں نے محض اس بات پر کہ یوپی حکومت نے چند پولس والوں کو ایک خاص ذہنیت کے ساتھ کام کرنے پر معطل کردیا ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی۔بہر حال اب یہ یوپی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت میں ان کی جانبدارانہ غفلت وکوتاہی کے ثبوت پیش کرے۔دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث اور جمعیت علما کے ایک دھڑے کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کے ایک انتہائی معتمد نے مجھے بتایا کہ مظفر نگر کے سابق ڈی ایم نے ملائم سنگھ کو اپنی خفیہ اور آف دی ریکارڈ رپورٹ میں یہ بتایا تھا کہ’ پولس میرے احکامات پر عمل نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس میں ایک خاص طبقہ کے افراد کی بھر مار ہے‘۔اگر اس رپورٹ کی صداقت مشکوک بھی ہو تب بھی یہ امر تو واضح ہے کہ مغربی یوپی کی پولس نے شرپسندوں کو گاؤں گاؤں آگ لگانے کے لئے کھلی چھوٹ دی۔اسی کے ساتھ جس گاؤں میں کمک کی ضرورت تھی وہاں مقامی پولس نے فوج اور دوسری پیرا ملٹری فورسز کو لے جانے میں تساہلی سے کام لیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولس ایک خاص ذہنیت کے ساتھ کام کر رہی تھی یا اس میں موجود ایک خاص طبقہ کے افراد ایک خاص مقصد کے لئے کام کر رہے تھے۔
کیمپوں میں مقیم متاثرین نے اپنی جو رودادرنج والم بیان کی وہ تو مختلف ذرائع اور وسائل سے قارئین کے سامنے آتی رہی ہے۔تاہم اس کے سوا اور بھی کچھ حقائق ایسے ہیں کہ جو بہت ہی تکلیف دہ ہیں۔بہت سے کیمپ دینی مدارس میں قائم ہیں۔ جب کوئی موقر وفد متاثرین کے احوال زار جاننے کے لئے جاتا ہے تو مدارس کے ذمہ دار یا کیمپ کے منتظمین کی خواہش ہوتی ہے کہ وفد کے اراکین براہ راست متاثرین سے نہ ملیں بلکہ منتظمین سے گفتگو کریں۔کیرانہ کے ایک بڑے دینی مدرسہ میں یہ صورتحال کچھ زیادہ ہی وضاحت کے ساتھ دیکھنے کو ملی۔وہاں کیمپ کے منتظمین اس قدر ناراض ہوئے کہ اپنی پریشانی بتانے کے لئے آگے آنے والے ایک غریب الوطن مسلمان کو انہوں نے دھکے دے کر پیچھے ہٹادیا۔بات یہاں تک بگڑی کہ منتظمین نے وفد کے سربراہ سے بات کرنے سے انکار کردیا۔ایک کیمپ کے ذمہ داروں نے کہا کہ یہاں جنس یا اشیائے خوردنی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں نقد رقم کی ضرورت ہے۔بیشتر کیمپوں میں پرانے کپڑوں کے انبار دیکھنے کو ملے۔اسی طرح ایک مقام پر کئی متاثرین نے کھل کربتایا کہ کیمپوں کے ذمہ داران بڑی بڑی رقمیں جمع کر رہے ہیں لیکن اس تناسب سے متاثرین تک مدد نہیں پہنچ رہی ہے۔کئی کیمپوں میں لوگوں نے بتایا کہ مدارس کے ذمہ داروں نے متاثرین کے لئے آنے والی اجناس کی بھاری امداد کو اسٹاک کر لیا ہے اور پناہ گزیں مردوں کو سب سے بعد میں کھانا دیا جاتا ہے۔بہر حال اس طرح کی شکایتوں نے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی مشکوک بنادیا ہے۔یوپی حکومت نے بڑی سرعت کے ساتھ مذکورہ تمام کیمپوں کے داخلہ دروازوں پر یوپی انتظامیہ کے سائن بورڈ اور بینر لگوادئے تھے۔کاش اتنی ہی سرعت شرپسندوں سے نپٹنے میں اور متاثرین کی مددکرنے میں بھی دکھائی ہوتی تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔
مظفر نگر اور اس کے اطراف کے پناہ گزیں کیمپوں میں سب سے زیادہ بری حالت حاملہ خواتین کی ہوئی۔میں نے تقریباً 12کیمپوں کا دورہ کیا۔ہر کیمپ میں 15سے 25تک حاملہ خواتین اپنی بے کسی اور بے بسی پر آنسو بہارہی تھیں۔ان میں زیادہ ترنئی عمر کی عورتیں تھیں۔ایسی حالت میں جس آرام‘غذا‘ماحول اور توجہ کی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ ان کیمپوں میں کیا ملتی لیکن ترجیحی بنیاد پر انہیں بستراور محفوظ پردہ دارکیمپ تو فراہم کئے ہی جاسکتے تھے۔لیکن ایسی خواتین کو اکثر ادھر ادھر لیٹے اور بیٹھے ہوئے دیکھا گیا۔بعض کیمپوں میں اتنا ضرور کیا گیا کہ عورتوں کو الگ رکھا گیا اور مردوں کو الگ۔لیکن اس سے زیادہ کوئی اور احتیاط نہیں برتی گئی۔دورہ والے دن مذکورہ کیمپوں میں کم سے کم سات ولادتیں عمل میں آئیں۔ اکثر خواتین سے میں نے گفتگو کی تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ جوکچھ دیکھ بھال ان کے پریشان حال شوہروں سے ہوسکتی ہے بس وہی ہورہی ہے۔بعض معاملات میں تو نوجوان حاملہ خواتین کے شوہر یا تو غائب ہیں یا ماردئے گئے ہیں۔ایسی صورت میں ان کی ذہنی کشمکش اور بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔کچھ معاملات میں شوہروں کے ساتھ ساتھ ان کی ساس اور سسر یا توگزرچکے ہیں یا ماردئے گئے ہیں۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حاملہ خواتین کیمپوں میں تنہا ہیں اور ان کے ساتھ نہ ان کے شوہر ہیں اور نہ ان کے دیگر اعزاء۔مذکورہ کیمپوں میں البتہ سرکاری طورپرڈاکٹروں کی ٹیم ضرور بھیجی گئی ہے۔لیکن ان ڈاکٹروں میں اول تو خاتون ڈاکٹرس بہت کم ہیں اور جو ہیں بھی وہ ایم بی بی ایس یا تجربہ کار نہیں ہیں۔پھر ان ڈاکٹروں کے پاس معقول اور وافر مقدار میں دوائیں نہیں ہیں۔بعض کیمپوں میں مریضوں کو ڈاکٹروں سے لڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ڈاکٹر ان سے کہتے ہیں کہ کل ہی تو دوا دی تھی اب پھر لینے آگئے۔میں نے بعض مریض بچوں اور عورتوں سے بات کی تو اندازہ ہوا کہ ڈاکٹرس بخار اور نزلہ کھانسی کی دوا محض ایک دن کے لئے دیتے ہیں۔جب انہیں آرام نہیں ہوتا اور وہ مزید خوارک لینے جاتے ہیں تو ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ کل ہی تو دی تھی۔بعض ڈاکٹروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں سے مناسب مقدار میں دوائیں نہیں مل رہی ہیں اور بعض اوقات ایکسپائرڈ دوائیں تک مریضوں کو دینی پڑ رہی ہیں۔
مظفر نگر کے دیہی کیمپوں میں سے ایک کیمپ میں جو ایک مدرسہ میں لگا ہوا ہے اور جہاں 339خاندان مقیم تھے دوپہر کے کھانے پر جو منظر دیکھنے کو ملا وہ بہت تکلیف دہ تھا۔ننگی زمین پرہر عمر کے افراد کو کھانا دیا جارہا تھا اور ان کے لئے زمین پر بچھانے کو کپڑا یا دری تک کا انتظام نہیں تھا۔ایسی تمام بدانتظامیوں اور ناقص سہولتوں کے باوجود ہر کیمپ پر سرکاری یا سماجوادی نمائندے یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ یہ کیمپ سرکار ی مدد سے چلائے جارہے ہیں۔جب ان سے پوچھا جاتا کہ سرکار کیا مدد کر رہی ہے تو وہ اس کی تفصیل بتانے سے قاصر رہتے۔ہر کیمپ کے صدر دروازے پر اترپردیش کے سرکاری نشان کے ساتھ بڑے بڑے پوسٹر‘بینر اور بورڈ آویزاں کرکے یہ کوشش ضرور کی گئی کہ کیمپ سرکاری شکل میں نظر آئے۔ اکثر کیمپوں کے منتظمین کی خواہش ہے کہ دورہ کرنے والے متمول افراد جنس یا کھانے پینے کی اشیا سے مدد نہ کریں بلکہ نقد رقم دیں۔اس سلسلہ میں جب میں نے بعض منتظمین سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ نقد رقم ملنے سے یہ آسانی ہوتی ہے کہ جس چیز کی جتنی ضرورت ہوتی ہے وہ خرید لی جاتی ہے۔جب کہ کیمپوں کے پناہ گزینوں کی فوری ضرورت کھانے پینے کی اشیا‘سر پر سایہ‘دواؤں اور بستروں کی ہی ہے۔بعض امدادرساں قافلوں سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں سے یہی اشیا لارہے تھے لیکن انہیں کہا گیا کہ نقد رقم جمع کرکے لائیں تو زیادہ بہتر ہے۔لہذا اب مسجدوں اور محلوں میں بڑے پیمانے پر چندہ جمع ہورہا ہے۔اس وقت جماعت اسلامی‘جمعیت علما کے دونوں دھڑوں سمیت درجنوں ملی جماعتیں کیمپ لگا لگاکر چندے جمع کر رہی ہیں۔اس سلسلہ میں ملک بھر کے مسلم علاقوں میں ہزاروں پوسٹر اور پمفلٹ چھاپ کر تقسیم کئے جارہے ہیں۔ان پمفلٹوں میں جماعتوں اور افراد کے ذاتی اکاؤنٹ نمبر تک دئے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان چندوں کا حساب کتاب کیسے چیک ہوگا اور کیسے امداد دینے والوں کو یہ باور کرایا جاسکے گا کہ ان کی رقم فی الواقع ضرورت مندوں تک پہنچ رہی ہے؟
اندازہ یہ ہے کہ کیمپوں کے منتظمین کے پاس ضرورت سے زیادہ امدادی سامان پہنچ گیا ہے لیکن متاثرین ابھی تک شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کو درست اور مناسب کھانا بھی نہیں مل رہا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور تشویشناک صورت حال سامنے آئی ہے۔ 8ستمبر کو فسادات بھڑکنے کے بعد سے لے کر اب تک مسلم اور ملی جماعتیں اور ان کے وفود ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ نہیں دے سکے ہیں۔گجرات فسادات میں ایک طرف جہاں بے گناہوں کو مارا کاٹا گیا تھا وہیں ان کی خواتین اور بچیوں کی
عصمتیں بھی تارتار کی گئی تھیں۔اب متاثرین کے لئے کام کرنے والے مسلم قائدین بآواز بلند یہ تو کہہ رہے ہیں کہ مغربی یوپی کے یہ فسادات گجرات کی طرز پر ہی کرائے گئے ہیں لیکن ان کی توجہ اس طرف نہیں گئی کہ ان فسادات کے دوران خواتین کی عصمتیں بھی محفوظ رہیں یا نہیں۔اگر مسلم جماعتوں نے اس پہلو پر توجہ دی ہوتی اور متاثرہ افراد کو یہ حوصلہ دیا ہوتا کہ اگر خدا نخواستہ ان کی خواتین کے ساتھ ایسی کوئی زیادتی ہوئی ہے تو وہ بتائیں اور ان کی رپورٹیں درج کراکر انہیں انصاف دلوایا جائے گا‘تو بہت پہلے خطاکاروں پرقانونی شکنجہ کسنے کا انتظام ہوگیا ہوتا۔
بعض کیمپوں میں ایک دو لڑکیوں اور عورتوں نے اس کی ہمت کی اور اپنی رپورٹیں درج کرائیں لیکن پولس نے ابھی تک نامزد ملزمین کو پکڑا اور نہ ہی ان متاثرہ خواتین کی میڈیکل جانچ کرائی۔ایسے میں وقت گزرتا جائے گا اور پھر یہ ثابت کرنا دشوار ہوجائے گا کہ متاثرہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی بھی ہوئی ہے۔تین خواتین کی میڈیکل رپورٹ آگئی ہے۔اس میں اس امر کی توثیق ہوگئی ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ حال ہی میں آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن ایسو سی ایشن کی ممبران کے ایک وفد نے بہت سے کیمپوں کا دورہ کرکے خواتین کو اس کا حوصلہ دیا کہ اگر ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے تو وہ اس کو اجاگر کریں۔لہذا ایک ہی کیمپ سے پانچ متاثرہ خواتین نے اپنی عصمت لٹنے کی درد بھری اور خوفناک داستانیں سنائی ہیں۔ان کی عصمتیں ان کے گاؤوں کے ہی رہنے والوں نے لوٹی ہیں۔اب ان کی رپورٹ درج کرادی گئی ہے لیکن ملزمین ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔یہاں تک کہ ان خواتین کا پولس نے بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ اتنی بڑی بڑی جماعتیں اور ان کے اتنے بڑے بڑے قائدین اس سلسلہ میں کیا کر رہے ہیں؟آخر اتنی بڑی بڑی رقمیں کس کام آرہی ہیں۔صرف رامپور سے ہی علما کا ایک وفد 60لاکھ روپیہ لے کر کیمپوں میں پہنچا ہے۔نہ جانے ملک بھر میں کہاں کہاں چندے ہورہے ہیں۔پھر آخر مسلم جماعتیں خواتین کے ساتھ ہونے والے اس شرمناک جرم پر خاموش کیوں ہیں؟گجرات میں بلاشبہ حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر ظلم ڈھایا گیا تھا۔لیکن وہاں متاثرین اور ان کی مدد کرنے والی جماعتوں اور سوسائیٹیوں نے ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کی فرداًفرداً رپورٹیں بھی درج کرائی تھیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں مجرمین کو سزا بھی ہوچکی ہے۔گجرات کے تاریک ترین فسادات کا ایک روشن ترین پہلو یہ ہے کہ سزا پانے والوں میں مودی کی انتہائی معتمد اور اس کی کابینہ کی ایک وزیر مایا کودنانی تک کو سزا سنائی جاچکی ہے اوروہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔جس انداز سے یوپی کی ’ملایم‘پولس بدمعاشوں اور غنڈوں سے نمٹ رہی ہے اور جس انداز سے متاثرین کی رپورٹوں کو درج کرنے اور ان کی تفتیش کو تساہلی کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ وہاں ایک مجرم کو بھی سزا نہیں دلوائی جاسکے گی۔اب تو خود پناہ گزینوں کے خلاف ہی سرکاری زمینوں پر بلا اجازت ٹینٹ لگانے اور قبضہ کی نیت سے ان پر آباد ہونے کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاملی جماعتوں اور ان کی صفوں میں کچھ آستین کے سانپ بھی چھپے ہوئے ہیں؟ جو یوپی حکومت کے گناہوں کی شدت کو اب کم کرکے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سیاق وسباق اور حالات وشواہد تو یہی بتاتے ہیں۔ایسے میں جب کہ متاثرین کے احوال انتہائی خراب ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنے گھروں تک واپس جانے میں خوف محسوس کر رہے ہیں‘ متاثرین کو معاوضہ نہیں ملا ہے ‘ ان کے دوسرے نقصانات کی تلافی بھی نہیں کی گئی ہے‘ ضلع انتظامیہ نے بہت سے کیمپ جبراً بند کردئے ہیں‘ملایم کے دربار میں حاضری دینے کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہوسکتا ہے ۔حال ہی میں ایک خبر قارئین کی نظر سے گزری ہوگی کہ بعض کیمپوں کے دورہ پر نکلے ہوئے علما کے ایک وفدکو اچانک ایک گاؤں کے کھیتوں میں اترنے والے خصوصی ہیلی کاپٹر سے لکھنؤ لے جایا گیا اور ملایم کے دربار میں ان کی حاضری دلوائی گئی۔ظاہر ہے کہ دیکھنے والوں کو تویہ’ اچانک‘ ہی لگا ہوگا لیکن فی الواقع یہ ایک منظم منصوبہ کے تحت ہی کیا گیا۔ان علما کا تعلق کہا جاتا ہے کہ جمعیت علما ہند سے تھااور انہوں نے ذرائع کے مطابق ملایم سنگھ کی پزیرائی کی کہ انہوں نے حالات کو جلد کنٹرول کرلیا۔حالانکہ بعد میں اس کی تردید بھی کردی گئی کہ یہ لوگ جمعیت علما سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن باوثوق ذرائع اب بھی اس پر مصر ہیں کہ ان علما کا تعلق جمعیت علما سے ہی تھا۔بلا شبہ جمعیت علما کے صدر مولانا ارشد مدنی کو اس دوران بہت متحرک اور بہت پریشان ومتفکر دیکھا گیا ‘انہوں نے بہت سے کیمپوں کا دورہ بھی کیا‘ان کے لوگوں نے کیمپ لگوانے میں تعاون بھی کیا‘خود مولانا نے متاثرہ خاندانوں کی جوان بیٹیوں کی شادیاں بھی کرائیں لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کی تساہلی‘نا اہلی‘کوتاہی اور تعصب وامتیاز سے بھری ہوئی کارروائیوں کے خلاف کوئی موثر آواز کیوں نہیں اٹھائی؟انہوں نے کیوں اس طرف توجہ نہیں دی کہ شرپسندوں نے بے بس وبے کس خواتین کی بے حرمتی بھی کی ہوگی۔اگر اس نکتہ پر شروع میں ہی توجہ دی گئی ہوتی تو شاید اس کا کچھ فائدہ بھی ہوتا۔آج تو خود پولس ہی کہہ رہی ہے کہ اتنے دن گزرجانے کے بعد طبی اعتبار سے کیسے ثابت کیا جاسکے گا کہ متاثرہ خواتین کی عصمت ریزی کی گئی ہے۔پولس چاہتی ہی یہ ہے کہ متاثرین سامنے نہ آئیں اور اگر حوصلہ پاکر وہ رپورٹ لکھوائیں بھی تو تفتیش سست رفتاری سے کی جائے اور ملزمین کو دندناتے پھرنے دیا جائے۔آج صورت حال یہ ہے کہ جن خواتین نے ہمت دلانے پر عصمت دری کی رپورٹیں درج کرائی ہیں ان کو ملزمین کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔اور ان پر شکایتوں کو واپس لینے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔پولس نے بہت سی شکایتوں کو ابھی تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کیا ہے۔یوپی حکومت اور خاص طورپرمظفر نگر انتظامیہ کی سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ دو درجن سے زیادہ کیمپوں میں پناہ گزیں پچاسوں گاؤوں کے ایک لاکھ سے زائد متاثرین کی تحریری شکایتوں کو جانچ پرکھ کر انہیں ایف آئی آر میں تبدیل کرنے کا اتنا بڑا ہمالیائی کام صرف اور صرف ایک پولس کانسٹبل کو سونپ رکھا ہے۔اس کانسٹبل کا کہنا ہے کہ میرا بچہ سخت بیمار ہے لیکن یہ کام بھی اہم ہے اور ہزاروں لوگوں کی موت اور زندگی کا سوال ہے۔اس لئے میں اپنے بیمار بچہ کو دیکھنے تک بھی نہیں جاسکتا۔آج تک کی تاریخ میں اس نے صرف دو سو شکایتوں کا جائزہ لیا ہے۔اندازہ لگائیے کہ اگر متاثرین کی تحریری شکایتوں کے جائزہ کا حال یہ ہے تو ان کی شکایات کے ازالہ کی صورت کب اور کس شکل میں ظہور پزیر ہوگی؟کیا ہمارے ملایم نواز علما اس صدا کو سن رہے ہیں ؟ wadoodsajid@gmail.com