لکھنؤ۔(بیورو)راحت کیمپوں میں رہ رہے مظفر نگر تشدد متاثرین کے ۳۴بچوں کی موت پر حکومت نے مہر لگادی ہے۔لیکن کیمپوں کی حالت موت کی وجہ پر جانچ کمیٹی نے صرف لیپاپوتی کی ہے۔میرٹھ کے کمشنر کی قیادت میں تشکیل اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی نے بچوں کی موت کاذمہ دارکسی کو نہیں ٹھہرایاہے ۔جانچ رپورٹ میں بچوں کی شناخت اورکچھ مشورے کے علاوہ ایسا کچھ نہیں ہے جس سے کیمپوں کی حالت اوربچوں کی موت کی وجہ سے کاپتہ چل سکے۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ۳۴بچوں میں سے ۱۲کی موت کیمپ کے اندر ہوئی ہے باقی کی حالت بارہ ہزارکیمپوں میں خراب توضرورہوئی لیکن ان کی موت مختلف کیمپوں میں ہوئی ہے۔ان بچوں کی موت کئی وجوہ سے ہوئی ہے۔مظفر نگر تشددمتاثرین کی راحت کیمپوں میں ہورہی مو
ت پرسپریم کورٹ کی سختی کے بعد ریاستی حکومت نے اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی تشکیل کی تھی عدالت نے ریاستی حکومت کو ۳۹بچوں کی موت کی فہرست دی تھی۔یکم دسمبر کو حکومت نے جانچ کمیٹی کی تشکیل کی تھی جسے ۱۸دسمبر کو رپورٹ دینی تھی لیکن کمیٹی نے مزید وقت مانگا اوربدھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔جانچ کمیٹی کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ بچوں کی موت کے حقائق کاپتہ لگائے گی۔
کیمپوں کے حالات وہاں کی صحت خدمات کی گہرائی سے جانچ پڑتال کرے گی۔اگربچوں کی موت ہورہی ہے تواس کی کیاوجہ ہے۔اس کاذمہ دارکون ہے۔تقریبا دس دن کی جانچ کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سات دسمبر سے ۲۰ دسمبر کے درمیان ۱۵سال سے کم عمر کے ۳۴بچوں کی موت ہوئی ہے۔اس میں بارہ بچوں کی کیمپوں کے اندر موت ہوئی ہے چاربچوں کی نمونیہ سے موت ہوئی ہے باقی بچوںکی حالت خراب ہونے کے بعد ان کے گھروالے انہیں کیمپوں سے مختلف اسپتالوں میں لے گئے جہاں ان کی موت ہوگئی۔
جانچ کمیٹی نے کیمپوں کی حالت اوروہاں کی طبی سہولیات پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔بچوں کی موت کی کوئی واضح وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔پرنسپل سکریٹری داخلہ ارون کمار گپتا نے بتایاکہ سب سے زیادہ موتیں مظفر نگر کے لوئی ،شاملی اورملک پورراحت کیمپوں میں ہوئی ہے۔زیادہ تربچوں کی موت راحت کیمپوں کے باہر اسپتالوں میں ہوئی ہے۔
اس سوال کے جواب پر کہ اگر راحت کیمپوں میں طبی سہولیات اچھی تھیں توبچوں کو ان کے گھروالے دوسرے اسپتال کیوں لے گئے۔انہوںنے کہاکہ بچوں کاعلاج راحت کیمپوں میں ہواتھا۔جوگھروالے یہاں کے علاج سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ انہیں سرکاری اورنجی اسپتال میں لے گئے تھے۔ انہوں نے بتایاکہ مظفر نگر کے ایک اورشاملی کے چارراحت کیمپوں میں ابھی بھی ۴۷۸۳ لوگ رہ رہے ہیں۔ کچھ لوگ انتہائی خوف سے رہ رہے ہیں توکچھ لوگ مکان بنانے کے جگہ کی نشاندہی نہیں کرپارہے ہیں۔کچھ لوگ اس گائوں کے بھی ہیں جہاں کوئی بھی تشددنہیں ہواتھا۔ انہوںنے بتایاکہ راحت کیمپوں کی حالت بہترہے وہاں سردی سے بچائو کاپورا بندوبست ہے۔ حکومت کی طرف سے ایک ہزارلوگوں کو کمبل اور۶۷۴ بچوں کو گرم کپڑے دئے گئے ہیں۔جانچ رپورٹ میں راحت کیمپوں کی سہولیات کے معیار میں اضافہ کئے جانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔