مینا کماری ہندوستانی سنیما میں وہ نام ہے جس کا ذکر آتے ہی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی اداکارہ کا جاذب نظر چہرہ ابھرتا ہے جس کی آنکھوں میں اور جس کے چہرے سے درد ہی درد ٹپکتاہے۔ یہ نام اس اداکارہ کا ہے جسے دنیا ملکۂ جذبات کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مذکورہ خطاب سے انکو اس لئے نوازا گیا کہ ان کی زندگی کی پوری مدت غم میں ڈوبی رہی ۔غربت سے نبر د آزما اس کے والدین کی معاشی حالت اس قابل نہیں تھی کہ وہ مہ جبیں اور اس کی دوبہنوں کی پرورش کر سکیں یااسے زیور تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔مہ جبیں سے بی بے مینا اور پھر مینا کماری بن جانے والی اس اداکارہ کا بچپن جس محرومی کسمپرسی میں گزرا اس کو اگر مینا کماری کے شیدائی جان جائیں تو ان کی بھی آنکھیں اشک بار ہوجائیں۔ سن بلوغت سے آخری ایام تک کا وہ بھی کم وبیش
احساس ِ محرومی ازدواجی زندگی، حقیقی پیار و محبت کی متلاشی رہی۔ ۳۱؍ مارچ ۱۹۷۲ء کو جب انھوں نے آخری سانس لی تو ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ صدر شفا خانے کا بل چکایا جا سکے۔حالانکہ مینا کماری فلم انڈسٹری کا وہ معروف نام ہے جس نے کامیابی کی نت نئی منازل طے کی ہیں۔ اپنے زمانے کی کامیاب ترین اداکاراؤں میں شمار مینا کماری زندگی میں اس قدر ناکام رہیں کہ انھوںنے شراب میں سکون تلاش کرنا شروع کردیا مگر ان کی اس کوشش نے انہیں نہ صرف موت کے قریب کردیا بلکہ ۴۰ سال کی عمر بھی مکمل نہ کی اور ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگئیں۔
یکم اگست ۱۹۳۱ء کوایک شیعہ خاندان میں شرفِ ولادت سے فیض یاب ہونے والی مہ جبیں محض ۷۔۶ سال کی عمر میں گردش حالات سے مجبور ہو کر بی بے مینا بن گئی۔ اداکار کا خواب دیکھنے والے اس کے والد علی بخش جب خوداپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکے تو اس نے اپنی چھوٹی بچی کو اس کی مرضی کے خلاف فلم میں اداکاری کے لیے مجبور کردیا جب کہ وہ دیگر بچیوں کی طرح تعلیم سے آراستہ ہونا چاہتی تھی۔ مہ جبیں کی والدہ اقبال بیگم کا تعلق ٹیگور خاندان سے تھا اور وہ ایک مشہور اسیٹج ڈانسر تھیں ۔۱۹۳۹ء فرزند وطن سے بطور بے بی مینا اپنا فلمی سفر شروع کرنے والی مینا نے تقریباً ۳۰ سالہ مدّت میں ۹۰ فلمیں کیں۔ ان میں انہیں چار مرتبہ بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا جب کہ آٹھ مواقع پر وہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد کی گئیں۔آخر میناکماری کو ٹریجڈی کوئن کیوں کہا جاتاہے جواب بہت آسان ہے۔ پردۂ سیمیں پر جذباتی رول ادا کرنے کے سبب انہیں پہلے ہی یہ خطاب ملا ہو لیکن حقیقی زندگی بھی ان کی ایسی جذباتی رہی ہے۔ ۱۹۶۲ء میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران مینا کماری فلم سازوہدایت کارکمال امروہی کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ اس کا انجام پہلے شادی اورپھر طلاق کی شکل میں سامنے آیا مگر اس کا اختتام ان کی موت پر ہوا۔ شادی کے ان کے فیصلے سے نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ فلم انڈسٹری بھی حیران تھی کیوں کہ ان کے درمیان عمر کا فاصلہ ۱۵ ؍ سال کا تھا۔ کمال امروہی ان سے ۱۵ سال بڑے تھے۔ اس شادی میں ناکامی کے بعد مینا کماری نے صرف شراب کو اپنا ہم نوا بنایا بلکہ اور لوگوں کے ساتھ ان کے معاشقے بھی موضوع گفتگو رہے جس میں سدا بہار اداکار دھرمیندر کا نام خصوصی طور سے لیا جاسکتاہے۔ مینا کماری کے خاندان کے مطابق کمال امروہی سے طلاق ہونے کے بعد مینا کماری کو شراب کی لت لگی تھی۔ اداکار دھرمیندر سے معاشقہ ضرور چلا مگر عمر میں وہ مینا کماری سے قریب چار سال چھوٹے تھے اس لئے ان کا معاشقہ شادی کی منزل تک نہیں پہونچ سکا۔ ویسے تو دنیا مینا کماری کو اداکارہ کے طور پر جانتی ہے مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اشعار بھی آسانی کے ساتھ کہتی تھیں۔ ان کے اشعار اکثر رومانی یا غم کے سمندر میں ڈوبے ہوئے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔مینا کماری نے اپنے اشعار کو ایک ڈسک کی شکل میں بھی ریکارڈ کرایا تھا جس کی موسیقی معروف موسیقار خیام نے تیار کی تھی۔
صدی کی عظیم اداکارہ و شاعرہ مینا کماری نے بچپن کے دنوں میں جو فلمیں کیں ان میں فرزندوطن، بچوں کا کھیل،لہر قابلِ ذکر ہیں۔ مینا کماری کی وہ فلمیں جو انکی دل فریب اداکاری کے سبب یاد کی جاتی ہیں۔ ان میں بیجو باورا(۱۹۵۲ء) ،پرینیتا(۱۹۵۳ء) ،آزاد(۱۹۵۵ء )، شاردا(۱۹۵۷ء) ،کوہِ نور(۱۹۶۰ء)،میںچپ رہوں گی(۱۹۶۱ء)، صاحب بیوی اورغلام(۱۹۶۲ء)، آرتی( ۱۹۶۳ء)،دل ایک مندر(۱۹۶۳ء)، کاجل (۱۹۶۵ء )،دل اپنا اورپریت پرائی(۱۹۶۰ء) ،غزل(۱۹۶۴ء) ،پھول اور پتھر(۱۹۶۶ء)، بہوبیگم (۱۹۶۷ء )،پرُنما (۱۹۶۷ء )،بے نظیر (۱۹۶۳ء)،منجھلی دیدی(۱۹۶۸ء)، جواب (۱۹۷۰ء)،دشمن (۱۹۷۱ء) ،میرے اپنے(۱۹۷۱ء)،پاکیزہ (۱۹۷۲ء)، گومتی کے کنارے(۱۹۷۲ء)،چراغ کہاں روشنی کہاں(۱۹۷۱ء )،وغیرہ کے نام خصوصی طور سے لئے جا سکتے ہیں۔
مینا کماری نے ایک طرف جہاں دلیپ کمار، اشوک کمار، دیو آنند، راج کپور، گرودت، پردیپ کمار، بھارت بھوشن، شمی کپور، سنیل دت، راجیندرکمار، راج کمار وغیرہ نامور اداکاروں کے ساتھ اداکاری کی وہیں نئے اداکاروں میں منوج کمار، دھر میندر اور ششی کپور کے ساتھ بھی ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ مینا کماری کی بطور ہیروئن آخری فلم پاکیزہ تھی جو ۱۹۷۷ میں آئی تھی اور اس زمانے میں سپر ہٹ ہو ئی تھی۔ اس فلم کے نغمے بھی خوب مقبول ہوئے تھے۔
۱۹۷۲ میں گومتی کے کنارے فلم میں کام کرنے کے بعد اس دنیائے فانی سے ۳۱؍ مارچ ۱۹۷۲ کو کوچ کرنے والی اداکارہ مینا کماری آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر وہ اپنی دل کش اداکاری کے سبب ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔ انھوں نے ہندوستانی سنیما کو جو وقار بخشا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔