لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ مقبولیت خواہ کتنی ہی کم ہو لیکن حوصلے بلند ہیں۔ پیس پارٹی کا یہ کہنا درست ہے۔ دو سال قبل اسمبلی انتخابات کے دوران اترپردیش کی سیاست میں قدم رکھنے والی پیس پارٹی کی مقبولیت میں کمی ظاہر ہو رہی ہے لیکن پارٹی آج بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کی مقبولیت میں بہت زیادہ کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اگر کسی پارٹی سے رابطہ نہیں ہوا تو ریاست میں پارلیمانی انتخابات پارٹی اپنے ہی دم خم پر لڑے گی۔ ۲۰۱۲ء میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں پیس پارٹی نے سیاست میں قدم رکھاتھا۔ انتخابات کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈر اپنی پارٹی کو چھوڑ کر پیس پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ سبکدوش افسر بھی پیس پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور انتخابات
کی کمان انہوں نے سنبھالی تھی۔ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے صدر سمیت چار امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ پارٹی نے لکھنؤ میں میئر کے عہدہ کیلئے محمد رئیس کواپنا امیدوار منتخب کیا تھا لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ وقت گزرتا گیا اور پارٹی کی مقبولیت میں کمی ہوتی گئی۔ حالت یہ ہو گئی کہ پارٹی کے تین ارکان اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا اور علیحدہ پارٹی بنائی لیکن پارٹی نے ہمت نہیں ہاری اور پارلیمانی انتخابات میں امیدواروں کو کھڑا کرنے پر غور کیا۔ اسی کے تحت پارٹی نے تیس امیدواروں کو پارلیمانی انتخابات میں کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اترپردیش میں پیس پارٹی کے۸۰ ؍امیدوار انتخاب کے میدان میں اتریں گے۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی انتخابات کیلئے پارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے گفتگو کر رہی ہے۔ معاہدہ نہ ہونے پر مذکورہ پارٹیوں سے گفتگو ناکام ہونے پر پارٹی ریاست میں ۸۰؍امیدواروں کوالیکشن میں کھڑا کرے گی۔