پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی بس کے قریب دھماکے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے تھے. بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے شیعہ زائرین کے لواحقین کا کوئٹہ میں علمدار روڈ پر، مرنے والوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دوسرے دن بھی جاری ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق مستونگ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین مرنے والوں کی لاشوں کے ساتھ سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں۔
دھرنے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے دھرنا جاری رہے گا۔
مستونگ واقعے کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ملحق شہر راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
دھرنوں کی وجہ سے عام زندگی متاثر
“ان دھرنوں کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتوں اور طالب علم تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ شاہراہ فیصل اور ملیر میں دھرنے کے باعث ایئرپورٹ جانے والی سڑک پر ٹریفک معطل ہے جس کے باعث کئی پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہو رہا ہے۔ لانڈھی جیل اور سینٹرل جیل سے بھی قیدیوں کو عدالتوں میں نہیں لایا گیا، جس وجہ سے سٹی کورٹس اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اکثر مقدمات کی سماعت ملتوی ہوگئی ہے۔”
نامہ نگار ریاض سہیل
کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق مجلس وحدت المسلمین کی اپیل پر سندھ میں کراچی، حیدرآباد، خیرپور، لاڑکانہ اور سکھر میں دھرنے جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف کراچی شہر میں سات مقامات پر یہ دھرنے دیے جا رہے ہیں جن میں نیشنل ہائی وے پر ملیر کے مقام پر، شاہراہ فیصل پر ناتھا خان ، یونیورسٹی روڈ اور ایم اے جناح روڈ شامل ہیں۔
دھرنوں کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ جن مقامات پر دھرنے جاری ہیں، وہاں گاڑیاں نہیں چلائی جائیں گی۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں امامیہ سٹوڈنٹ آرگنائیزیشن نے دوپہر دو بجے کے بعد جی ٹی روڈ پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مال روڈ پر مظاہرین کی بڑی تعداد نے دھرنا دے رکھا ہے۔
اس سے پہلے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور مستونگ میں پیش آنے والے واقعے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا۔
انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اشارہ بھی دیا۔
دھرنے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے دھرنا جاری رہے گا
انھوں نے کہا ’مستونگ میں ازبک عسکریت پسند کا مارا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غیر ملکی شدت پسند بلوچستان پہنچ چکے ہیں‘۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی بس کے قریب دھماکے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے تھے۔
مستونگ کے ڈی پی او محمد عابد نے بی بی سی کو بتایا کہ بم ڈسپول سکواڈ نے اس حملے میں 100 کلو بارودی مواد استعمال کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔
یہ رواں ماہ بلوچستان میں ایران سے آنے والے زائرین کی بس پر حملے کا دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل یکم جنوری کو کوئٹہ شہر کے مغربی بائی پاس پر اختر آباد کے علاقے میں ایسی ہی ایک بس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور پولیس اہل کاروں سمیت متعدد زخمی ہوگئے تھے۔