محققین نے ایک ایسی اینٹی باڈی بنانے والی پروٹین دریافت کی ہے جو ملیریا کے پیراسائٹس کی نشو ونما کو روکنے میں ممکنہ طور پر بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں ملیریا کے خلاف نئی ویکسین کی تیاری کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ملیریا کی بیماری دنیا بھر میں ہر سال چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ اس مرض کا شکار سب سے زیادہ افریقہ کے زیریں صحارا کے علاقے کے بچے ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین ایک عرصے سے ملیریا کی مختلف اقسام کے خلاف مؤثر ادویات تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکا کے الرجی اور عفونتی بیماریوں کے نیشنل انسٹیٹیوٹ کے محققین نے ایک ایسی پروٹین دریافت کی ہے، جس کی مدد سے تیار کی جانے والی ویکسین ملیریا کے متعدی پیراسائٹس یا طفیلیوں کے خون میں نشو ونما پانے کو روکنے میں مدد کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ان محققین نے ایک ایسی اینٹی باڈی بنانے والی پروٹین دریافت کی ہے جو ملیریا کے پیراسائٹس کی نشو ونما کو روکنے میں ممکنہ طور پر بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں ملیریا کے خلاف نئی ویکسین کی تیاری کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ اس پروٹین کی مدد سے سائنسدان ملیریا کی شدید ترین اقسام کے خلاف اپنی کوششوں کو تیز تر اور مزید مؤثر بنا سکیں گے۔ امریکی سائنسدانوں نے PfSEA-1 نامی جو پروٹین دریافت کی ہے، اس کی موجودگی جسم میں اینٹی باڈیز کی تیاری کو تیز تر کر دیتی ہے۔
اس پروٹین سے تیار کردہ ایک ابتدائی ویکسین کا تجربہ چوہوں پر کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پتہ یہ چلا کہ چوہوں کے خون میں ملیریا پیرا سائٹس کی سطح کم ہو گئی تھی۔ اس پروٹین نے خون میں ایسی اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیں، جنہوں نے ملیریا کے طفیلی جراثیموں کی خون کے ایک سْرخ خلیے سے دوسرے میں منتقلی یا ان کی افزائش کا عمل روک دیا۔
ریسرچرز نے اپنے اس تحقیقی مطالعے میں افریقی ملک تنزانیہ کے دو سال کی عمر کے بچوں کے خون کے نمونوں کو بنیاد بنایا، جن میں یا تو ملیریا کے خلاف مزاحمت پائی جاتی تھی یا وہ اس بیماری کا شکار ہو سکتے تھے۔ سائنسدان جینیاتی تجزیوں اور متعدد لیبارٹری معائنوں کے بعد PfSEA-1 نامی پروٹین کی شناخت کر پائے۔ انہوں نے اپنے تجربے کے نتائج کی روشنی میں تصدیق کی کہ خون کے سْرخ خلیوں میں پہنچنے کے بعد اس پروٹین نے ملیریا پیراسائٹس کی وجہ سے پھیلنی والی انفیکشن کو روک دیا تھا۔اس کے بعد محققین نے چوہوں کے پانچ گروپوں کو اس پروٹین سے تیار کردہ ویکسین دی اور انہیں یہ اندازہ ہوا کہ ان چوہوں میں بھی پیراسائٹس کی تعداد کم ہوگئی تھی۔ اس طرح ان چوہوں کے مقابلے میں جنہیں یہ ویکسین نہیں دی گئی تھی، وہ چوہے زیادہ دیر تک زندہ رہے جنہیں یہ ویکسین دی گئی تھی۔ سائنسدانوں نے اس تجربے کے ساتھ ساتھ ایک اور مطالعاتی جائزہ بھی لیا۔ انہوں نے۱۲ سے ۳۵برس تک کی عمر کے۱۳۸ مردوں کے پلازما یا خون کے بے رنگ سیال کے نمونوں کا مطالعہ کیا۔ ان تمام مردوں کا تعلق افریقی ملک کینیا کے ملیریا کی بیماری کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں سے تھا۔ ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ جن مردوں میں اینٹی باڈیز کے اثرات پائے گئے، اْن میں ملیریا پیراسائٹس کی سطح ان مردوں کے مقابلے میں ۵۰فیصد کم تھی جن کے خون کے نمونوں میں دوران تحقیق اینٹی باڈیز کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔