ثانیہ سعید کے لیے صفیہ کے کردار (فلم منٹو میں مرکزی کردار کی اہلیہ) کے بہترین حصوں میں سے ایک اردو ادب کے معروف نام کی تینوں بیٹیوں سے آف اسکرین بہترین تعلق قائم ہونا تھا۔
یہ تعلق اتنا بڑھ گیا کہ مختصر ذاتی پیغامات کا تبادلہ ثانیہ شعید اور منٹو کی منجھلی بیٹی نزہت (نزی) کے درمیان اکثر ہونے لگا جن میں نزہت شوخ انداز میں ثانیہ کو ‘ امی جان’ کہتی جس کے جواب میں اداکارہ بھی انہیں ‘ بیٹی جان’ کہہ کر بلاتیں۔
ثانیہ سعید تسلیم کرتی ہیں کہ صفیہ کا کردار ادا کرنا آسان نہیں تھا بلکہ یہ ڈرا دینے والے تجربے کے ساتھ ایک ‘ ٹریٹ’ بھی تھی اور وہ منٹو میں کسی بھی کردار کو قبول کرنے کے لیے تیار تھیں۔
ثانیہ سعید کے مطابق ” میں اور نمرہ (بچہ جنھوں نے منٹو کی ہمزاد کا کردار ادا کیا) کہتے تھے کہ ہم کسی بے جان چیز کے کردار بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جیسے ایک کمرے کے کسی کونے میں کھڑے بت وغیرہ”۔
تاہم جب منٹو کی بیٹیوں نے ثانیہ کی اداکاری کو سند منظوری دیتے ہوئے بتایا “بالکل ایسے ہی” ان کی ماں تھیں تو اداکارہ کے مطابق “انہیں کافی سکون محسوس ہوا اور وہ جذباتی ہوتے ہوئے باآواز بلند رونے لگیں، یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ دنیا میری اداکاری یا کردار کے بارے میں کیا سوچتی ہے”۔
جب ثانیہ کو منٹو کی بیوی کے لیے کردار کے لیے منتخب کرلیا گیا تو انہوں نے صفیہ کو کس نظریے سے دیکھا اور ان کا منٹو کی زندگی میں کیا کردار تھا؟
ثانیہ سعید اس بارے میں بتاتی ہیں کہ انہوں نے منٹو کے بارے میں کافی کچھ پڑھا اور تحقیق کرکے تلاش کیا کہ صفیہ ان تمام خواتین کی علامت ہیں جو مشکل کے وقت میں مردوں کے ساتھ اور ان کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم بھی نہیں ہوتا “وہ خاموش لائف لائن ہوتی ہیں اور اگر آپ کی خواہش ہو تو ہر قسم کے کاموں میں شراکت دار بھی”۔
اس فلم میں منٹو کی زندگی کے آخری چار برسوں کو دکھایا گیا ہے جب اس ادیب کو مسترد ہونے، تکالیف اور اپنی صاف گو دیانتدارانہ تحریروں پر شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا، ثانیہ سعید کے مطابق ” اور وہ (صفیہ) منٹو کے ساتھ کھڑی تھیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ وہ ایسے مرد ہیں جیسا کوئی اور نہیں”۔
دوسرے ہوسکتا ہے کہ اس سے متفق نہ ہو، فلم بین ترنم بھی ان میں سے ایک ہیں اور ان کے خیال میں صفیہ ” کوئی مضبوط شخصیت نہیں تھیں، انہیں اپنے خاندان کے لیے زیادہ کرنے اور منٹو کو زیادہ اخلاقی سہارا دینے کی ضرورت تھی”۔
ترنم کے دوست قیصر عبداللہ کا کہنا تھا ” میرے خیال میں صفیہ نے اپنی حد تک ہر ممکن کوشش کی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ منٹو صاحب کتنے مشکل شخص تھے”۔
نزہت منٹو اپنی مرحوم ماں کا دفاع کرتے ہوئے اس سے اتفاق کرتی ہیں” وہ ایک زبردست خاتون تھیں اور انہوں نے ایک مشکل شخص کو کھڑا ہونے میں مدد دی تھی جو کوئی آسان کام نہیں، وہ کافی صابر خاتون اور کبھی بھی ہمارے سامنے نہیں روئیں، ہم عام بچوں کی طرح پلے بڑھے اور تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آئی جس کے لیے ہم اپنی ماں کے شکر گزار ہیں”۔
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ایک کمزور راہ گیر کی طرح اپنے شوہر کو بے بسی سے المیہ اختتام کی جانب بڑھتے دیکھنا اور اس کے درد میں کمی کے لیے کچھ نہ کرپانے کے ساتھ ساتھ ثانیہ سعید اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ صفیہ ایک ” خود پر قابو رکھنے والے مضبوط ” خاتون تھیں۔
کوئی بھی اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتا کہ منٹو نے کبھی بھی صفیہ کے بارے میں کچھ تحریر نہیں کیا۔ ثانیہ سعید کہتی ہیں ” منٹو کی جانب سے صفیہ کے بارے میں کچھ خاص تحریر نہیں کیا گیا”۔
ثانیہ سعید کے بقول ہوسکتا ہے کہ منٹو صفیہ کے بارے میں لکھنا چاہتے ہو مگر انہوں نے صفیہ کے ایک گھریلو سی عورت سے زیادہ کچھ ڈھونڈ نکالا ” مگر وہ انہیں بہت اہمیت دیتے تھے، ادبی بیٹھکوں میں بھی جو کہ اس دور کے لحاظ سے غیرمعمولی تھا”۔
منٹو کے ورثاءثانیہ سعید کی جانب سے اپنی ماں کے کردار پر خوش ہیں، 67 سالہ نزہت منٹو جو اب لاہور کی ایک ٹیچر ہیں، کا کہنا ہے ثانیہ نے میری ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے مکمل انصاف کیا، میں حیران ہوتی ہوں کہ اس نے کیسے درست تاثرات کو درست وقت پر پیش کیا، بالکل امی جان کی طرح”۔
نزہت کو مگر ایسا ضرور لگتا ہے کہ صفیہ کو فلم میں زیادہ بڑا کردار دیا جانا چاہئے تھے کیونکہ وہ ” ابا جان کے پیچھے کھڑی عورت تھی” اور ان کے بغیر وہ زندگی کی مشکلات، تکالیف اور دیگر مسائل سے کبھی بچ نہیں پاتے۔
اور فلم میں کام کرنا اور منٹو کی بیوی کا کردار ادا کرنا یادگار لمحہ تھا مگر ثانیہ سعید نے جو سب سے اہم چیز دریافت کی وہ فلم کے سحر میں جکڑے لوگوں سے بھرے سینما تھے ” جس پر پہلے مذمت کی جاتی تھی مگر اب اس منٹو کو سینکڑوں افراد ایک وقت میں دیکھ رہے ہیں اور وہ بھی اکھٹے، اس کی زندگی کو جذب کررہے ہیں اور سب سے اہم اس کے کام کو، میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ دیکھنا کتنا اچھا تجربہ ہے کہ ہماری فلم کا ہیرو ایک راٹر بھی ہوسکتا ہے، اس سے اس پرانے خیال کی نفی ہوتی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو دکھا رہے ہیں جو بے مغز سینما کو ترجیح دیتے ہیں، باکس آفس نے اس کو غلط ثابت کیا ہے اور یہ بذات خود ایک بڑی تبدیلی ہے”۔