منیٰ: سعودی عرب میں رمی کے دوران منیٰ میں پیش آنے والے اندوہناک حادثے کے عینی شاہدین نے واقعے کا ذمے دار سعودی حکام کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی عبادات جاری رکھنے کے حوالےسے خوفزدہ ہیں۔
مکہ مکرمہ کے باہر حج کے دوران منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے بھگدڑ سے ہلاکتوں کا یہ گزشتہ 25 سالوں میں سب سے بدترین واقع ہے۔
جمعرات کو رونما ہونے والے اس سانحے میں 717 افراد ہلاک اور 863 زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد سعودی فرمانرواں شاہ سلمان نے حاجیوں کیلئے کی جانے والے انتظامات کا ازسرنو جائزہ لینے کا حکم دیا۔
ایک سعودی وزیر نے عازمین کو اس حادثے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حج کے قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا۔
تاہم عینی شاہدین کی جانب سے بتائی گئی اس سے یکسر مختلف ہے۔
اپنی والدہ کے ہمراہ بھگدڑ سے بچ جانے والے لیبیا کے 45 سالہ احمد ابو بکر نے بتایا کہ وہاں بہت بھیڑ تھی، پولیس نے عازمین کیلئے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے سامنے لاشوں اور زخمیوں کو دیکھا، وہاں دم گھٹ رہا تھا۔ ہم پولیس نکی مدد سے متاثرین کو ہٹایا لیکن اس موقع پر موجود پولیس واضح طور پر ناتجربہ کار محسوس ہوئی۔
احمد نے مزید بتایا کہ ان کو وہاں کے راستوں اور اطراف کی جگہوں کا بھی علم نہیں تھا۔
20 سے 30 لاکھ عازمین منیٰ میں لگائے گئے ڈیڑھ لاکھ سے زائد خیموں میں قیام پذیر ہوتے ہیں جہاں وزارت داخلہ کے مطابق حجاج کی حفاظت اور ٹریفک اور عوام کے ہجوم کو قابو کرنے کیلئے ایک لاکھ پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
بھگدڑ صبح نو بجے کے قریب مچی جس کے بعد فوراً سول ڈیفنس نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ منیٰ میں بھیڑ کے واقعے سے نمٹ رہے ہیں۔
سعودی وزارت داخلہ جنرل منصور الترکی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دو شاہراؤں کے سنگم پر پیش آیا جہاں دو اطراف سے آنے والے عازمین کا آپس میں ٹکراؤ ہوا۔
ترجمان کے مطابق شدید گرمی اور تھکاوٹ بھی بڑی تعداد میں ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنی، جمعرات کو منیٰ میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
مقدس مقامات کی ازسرنو تعمیرات کے ایک بڑے ناقد نے کہا کہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود پولیس کی صحیح طریقے سے تربیت نہیں کی گئی اور زبان پر مہارت نہ ہونے کے سبب انہیں بڑی تعداد میں غیر ملکی عازمین سے رابطے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مکہ کی اسلامی ورثہ ریسرچ فاؤنڈیشن کے شریک بانی عرفان ال الاوی نے کہا کہ انہیں یہ تک نہیں معلوم کے لوگوں سے بات کیسے کرنی ہے، یہ عوام کو قابو نہیں کر پا رہے تھے۔
خوف ہے حادثہ دوبارہ رونما نہ ہو
مصر سے تعلق رکھنے والے واقعے کے عینی شاہد 39 سالہ محمد حسن نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسی طرح کا حادثہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔ ‘آپ دیکھیں گے کہ تمام اہلکار ایک جگہ جمع ہیں اور کچھ نہیں کررہے ہوں گے’۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ میری قومیت کی وجہ سے میری تضحیک کی گئی، ایک سیکیورٹی نے مجھے بلا کر کہا کہ چلو اس مصری لاش کی شناخت کرو۔
محمد حسن نے سوال کیا کہ آخر یہ ہمیں اس طرح ذلیل کیوں کررہے ہیں، ہم یہاں عازمین کی حیثیت سے آئے ہیں اور ان سے کچھ نہیں مانگ رہے۔
انہوں نے غصے میں سیکیورٹی آفیشلز پر اور دیا کہ سڑک کو ٹھیک کریں تاکہ لوگوں کے چلنے راستہ صاف ہو سکے۔
رمی یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل جمعے اور ہفتے کو جاری رہے گا لیکن عازمین نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں ڈر ہے کہ جمعرات والا حادثہ دوبارہ نہ رونما ہو جائے جبکہ کچھ لوگوں نے خدا کی منشا پر یقین رکھتے ہوئے کہا کہ خدا ہماری حفاظت کرے گا۔
مصری حاجی نے ہم کل کے حوالے سے ڈرے ہوئے ہیں، میں رات میں کنکریاں مارنے کیلئے جانا چاہتا ہوں، اسی لیے میں نے ایک سے درخواست کی اور وہ مان گئے۔
حج کے موقع پر بھگدڑ مچنے سے ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی مواقعوں پر اس طرح کا واقعہ رونما ہوا چکا ہے لیکن سخت حفاظتی انتظامات کی بدولت تقریباً ایک دہائی اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔
اس طرح کا آخری سب سے بڑا واقعہ جنوری 2006 میں رونما ہوا تھا جب رمی کے دوران بھگدڑ مچنے سے 364 حاجی جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ 1990 میں اس طرز کا سب سے بدترین واقعہ رونما ہوا جب ایک سرنگ میں بھگدڑ مچنے سے 1426 عازمین جان گنوا بیٹھے تھے جن میں سے اکثریت ایشیائی باشندوں کی تھی۔