وارانسی: بدحالی میں رہنے والے وارانسی کے بنکروں کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی ایک امید بن کر آئے لیکن ان کی مدت کار ایک سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود یہاں رہنے والے لاکھوں بنکرو ں کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ اب بھی بچولیوں سے لے کر کاغذی کوآپریٹیو سوسائٹی اور فرموں کے استحصال کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابات میں بھی وارانسی میں رہنے والے تقریبا ًچھ لاکھ سے زیادہ بنکروں کا مسئلہ اٹھایا تھا اور اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی انہوں نے بنکروں کے حقوق اور‘‘ استاد’’ جیسے اہم منصوبوں کا زور شور سے وعدہ کیا لیکن یہ سب ہوا محل ہی ثابت ہوئے ۔ مسٹر مودی نے سال کے شروع میں اپنے پارلیمانی حلقے کے بنکروں کے لئے ڈریم پروجیکٹ ہنر اور روایتی آرٹ کو فروغ دینے کی شروعات کی تھی لیکن اس سے اب تک کسی کو فائدہ نہیں پہنچا اس پروجیکٹ کا مقصد خاص طور پر مسلم بنکروں کو روایتی بنائی کے فن میں مزید بہتر بناکر انہیں بازار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے لیکن یہاں کے بنکروں کو اس اسکیم کا ہی کوئی علم نہیں ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ یہاں کے بنکروں کو بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں ہے ۔
وارانسی میں بنکر اور مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے بڑی بازار ایک ایسا علاقے ہے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ بنکر رہتے ہیں۔ اس علاقے میں بنکروں کو دن بھر میں صرف چار سے پانچ گھنٹے ہی بجلی دستیاب ہے ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے بلب کی روشنی میں تقریباً 8 سے 10 گھنٹے کام کرنے کے بعد ایک بنکر ایک سو سے تین سو روپے تک ہی کما پاتا ہے ۔مزدوروں کے لئے کام کرنے کے حالات اور سہولتیں ہی ان کی بدحالی کی کہانی بتادیتی ہے یہاں بنیادی ڈھانچہ کی زبردست کمی ہے نہ تو ان بنکروں کی تنظیم ہے اور نہ ہی وہ اپنا موقف پیش کرنے کی حالت میں ہے ۔ یہاں قاضی سعداللہ پور میں سلک خزانہ نام سے ایک فرم چلانے والے زیڈ انصاری نے مسٹر مودی اور ان کی اسکیموں کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ کسی لیڈر یا حکومت نے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اور مسٹر مودی بھی یہاں کے لیے کوئی فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اب تک بنکر مزدوروں کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اور مستقبل میں بھی یہاں کچھ بدلنے والا نہیں ہے ۔
زیڈ انصاری نے کہا کہ حکومت کو ان مزدوروں کو اہل بنانے کے لئے بغیر بیاج کے قرض فراہم کرانے ، منظم کرنے اور انہیں فائنانس کرنے سمیت کم قیمت پر ریشم کا دھاگہ دستیاب کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بہتر ڈھنگ سے اپنا کام کرسکیں اس کے علاوہ بنکروں کے علاقوں کی ترقی اور انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرانا بھی بڑا چیلنج ہے ۔مسٹر انصاری نے بتایا کہ بڑی بازار علاقے میں بنکروں کے بچوں کے لئے صرف میونسپل کارپوریشن کا ایک اسکول ہے جس میں تعلیم کا معیار انتہائی خراب ہے جبکہ یہاں بیشتر مدرسے ہی ہیں جہا ں ان کے بچے پڑھنے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بڑی بازار علاقہ دراصل بنکروں کے غلبے والا علاقہ ہے جہاں سبھی کی حالت ایک جیسی ہی ہے ۔ یہ مزدور انپڑھ ہیں اور انہیں حکومت کی اسکیموں کا کوئی علم نہیں ہے ۔ ان مزدوروں کے لئے باقاعدہ کوئی تنخواہ طے نہیں ہے اور یہ جن فرموں میں جن لوگوں کے لئے کام کرتے ہیں وہ انہیں اپنے حساب سے پیسہ دیتے ہیں ۔ ان مزدوروں کو یومیہ کام کے حساب سے پیسے دیئے جاتے ہیں اور ان کی کوئی طے شدہ تنخواہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کا استحصال ہورہا ہے ۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہاں ریشم کی ساڑھیوں کو اپنے ہاتھ کے ہنر سے سجانے والے بنکر محمدمنیر بھی یہاں بدحالی اور غریبی کی زندگی بسر کرنے والے لاکھوں بنکروںمیں سے ایک ہیں جن کے کنبہ میں دس اراکین ہیں وہ اپنے کنبہ میں تنہا کمانے والے ہیں۔ منیرنے بتایا کہ انہیں ایک بنارسی ساڑھی بنانے میں تقریباً دو سے ڈھائی ماہ کا وقت لگ جاتا ہے ۔ منیر ہاتھ سے ساڑھی بنتے ہیں جس کی قیمت بازار میں تقریباً بیس سے چالیس ہزارتک ہوسکتی ہے لیکن انہیں روزانہ اس کے لئے محض سو یا دوسو روپے ملتے ہیں جو کم از کم مزدوری کے ضابطوں کابھی مذاق ہے ۔ حالانکہ بنکرمشینوں سے کام کرنے کے لئے بھی راغب ہورہے ہیں جس سے انہیں ہاتھ سے کام کرنے والے بنکروں سے کچھ بہتر آمدنی ہوتی ہے لیکن اس سے ہاتھ کے فن کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بنکروں سے بنائی کا کام کرانے والے محمد شہاب الدین نے بتایا کہ وہ مسٹر مودی اور ان کے کام سے بہت مایوس ہیں جنہوں نے اتنے بڑے بڑے وعدے تو کئے لیکن اب تک یہاں کے کنبوں کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا یا ہے ۔ انہوں نے مزدوروں کی مانگوں پر دھیان دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی مزدور تنظیم نہیں ہے اور یہاں پر فرم اور کوآپریٹیو سوسائیٹیز تو سینکڑوں ہیں لیکن وہ حقیقت میں کاغذوں پر ہیں اور ان کام صرف حکومت سے کم بیاج پر قرض لینا ہے ۔ یہ فرم بنکروں کا استحصال کرتی ہیں اور کم از کم مزدوری پر ان سے کام کراکے زیادہ سے زیادہ قیمتوں پر بیچتی ہے ۔