مودی حکومت کے پہلے ریل بجٹ پر سابق وزیر ریل لالو پرساد یادو نے کہا کہ ’’سدانند گوڑا کو جو کچھ لکھ کر دیا گیا وہ انہوں نے فٹافٹ پڑھ دیا‘‘ریل بجٹ ہو یا عام بجٹ وزیر کا کام اس کو پڑھ کر سنانا ہی ہوتا ہے ۔ کیوں کہ بجٹ کی تیاری کا سارا کام تو سکریٹری انڈر سکریٹری اور دیگر افسران مل کر کرتے ہیں وزیر موصوف کا کام تو صرف اس پر نظر ثانی کرنا یا بجٹ کی تیاری سے قبل چند ہدایات (جو ان کی حکومت کی پالیسی سے متعلق ہوتا ہے )دینا۔لیکن یہاں لالو پرساد یادو کا طنز مودی حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار پر تنقید کرنا ہے ۔گویا لالو یادو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بجٹ وزیر ریلوے نے کھلے ذہن یا آزادانہ رہ کر تیار نہیں کیا ہے بلکہ مودی کے اپنے کام کرنے کے انداز کے مطابق بنایا گیا ہے ۔جس پر وقفے وقفے سے تنقیدوں کے تیر برستے رہے ہیں اور آئندہ بھی اس بات کی امید کم ہی دکھائی دیتی ہے کہ مودی حکومت تنقیدوں سے بچ پائے ۔کیوں کہ مودی حکومت سے عوام نے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں ۔جس کا پورا ہونا ناممکن تو نہیں لیکن سخت دشوار ضرور ہے ۔ اور اس دشواری کی وجہ سمجھ سے بالا تر نہیں ۔موجودہ سیاست کا مزاج آمرانہ اور خود غرضانہ ہے ۔جہاں یہ دو چیزیں ہوں وہاں عوام کی خوشحالی کی فکر کوئی نہیں کرتا جس کو ہم آزادی کے بعد سے ہی دیکھ رہے ہیں ۔شکر ہے کہ ریل بجٹ میں کسی بوجھ کو عوام کی پیٹھ پر نہیں ڈالا گیا ہے ۔شاید اسی لئے تنقیدوں سے بچنے کیلئے بجٹ سے قبل ہی ریل کرایہ اور بار برداری کا بڑھا دیا گیا اور آگے بھی امید ہے کہ چند ماہ بعد ہی دوبارہ کرایہ میں اضافہ کیا جائے گا کیوں کہ پورے بجٹ کے بحث میں ریلوے کی خستہ حالت کا رونا رویا گیا اور اس کا ذمہ دار سابقہ یو پی اے حکومت کو بتایا گیا ۔ہر نئی حکومت کی یہ پرانی کہانی ہے کہ وہ جب عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے
میں دشواری محسوس کرتی ہے تو اسے پچھلی حکومت کی خامیاں ہی یاد رہ جاتی ہیں ۔
مذکورہ ریل بجٹ میں نئی پریمیم ٹرین چلانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔کافی عرصہ سے حکومت ریلوے کے زیر بحث بلٹ ٹرین ہے اس کا پلان بھی تیار ہے لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر اس پر کام آگے نہیں جاری رہ پایا ۔ بلیٹ ٹرین کا بھی معاملہ ایسا ہی تھا لالو پرساد کا کہنا تھا کہ بلیٹ ٹرین پہلے پٹنہ اور کولکاتا کے درمیان چلائی جائے جبکہ حکومت میں موجود دیگر مضبوط لابی کا کہنا تھا کہ نہیں بلیٹ ٹرین کی شروعات پہلے ممبئی اور احمدآباد کے درمیان ہو اور آج وہ لابی جیت گئی اس کی وجہ بھی ہے ۔اسی بلیٹ ٹرین کی بحث میں ایک بیورو کریٹ نے ٹی وی انٹر ویو میں کہا کہ بلیٹ ٹرین کی بحث ایسی ہی ہے جیسی کہ ہسپتال میں زیر علاج کسی مریض سے کہا جائے کہ وہ سو میٹر کا ریس لگائے ۔ابھی ریلوے کی حالت خراب ہے اس کے پاس رقم نہیں ہے کہ وہ اپنے پچھلے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔اور ہم ابھی سے بلیٹ ٹرین کی بات کرتے ہیں ۔جبکہ اس ملک کی ستر فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذاررہی ہے ۔اس لئے ہمیں کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ ستر فیصد جو عوام غربت سے جوجھ رہی ہے اس کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی فکر کی جائے ۔جبکہ نریندر مودی کی بات الگ ہی ہے ان کا کہنا ہے کہ’’ موجودہ ریل بجٹ اتحاد اور شفافیت کو قوت بخشے گا ‘‘۔یہ ریلوے بجٹ مودی کی امیدوں پر بھی کھرا اترتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔کیوں کہ مودی نے جن دو باتوں کے بارے میں یعنی اتحاد اور شفافیت کی بات کی ہے یہ دونوں ہی ملک عزیز میں ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ۔
نریندر مودی نے کہا کہ یہ ایکیسویں صدی کا ریل بجٹ ہے ۔یہ جدید بجٹ ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھی دھیان رکھا گیا ہے جس میں مسافر کی سلامتی کے بھی انتظامات کا منصوبہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریل صرف سفر کا ہی ذریعہ نہیں ہے ۔ بیشک ہندوستانی ریلوے کے سامنے مسافر کی سلامتی ،صحت اور دیگر سہولیات بہم پہنچانے کے انتظامات کا ایک چیلنج بھرا راستہ ہے ۔یہ سہولیات آسانی سے مسافروں کو مل جائیں اور ریل کا سفر آج جو مشکل بھرا ہو گیا ہے وہ سفر باعث ظفر کا منظر پیش کرنے لگے ۔ملک عزیز کے دوسرے محکموں کی طرح یہاں بھی بد عنوانی نے اسے کھوکھلا کردیا ہے ۔یہی سبب ہے سابقہ منصوبے ٹھپ پڑے ہیں ۔ٹی وی پرایک سابق افسر نے کہا کہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے ہم ورلڈ کلاس ریل بنا سکتے ہیں لیکن مسئلہ ہمارے سامنے سب سے بڑا بدعنوانی اور دوسرے نمبر پر سیاسی رسہ کشی کا ہے اگر ان دونوں باتوں پر قابو پالیا گیا تو ہماری ریل ورلڈ کلاس ریل بھی ہو جائے گی اور مسافروں کے مسائل حل ہونے میں پریشانی نہیں آئے گی۔ہمارے یہاں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ کاغذوں پر تو منصوبے بن جاتے ہیں لیکن وہ کبھی زمین کی سطح پرنہیں آتے ۔اگر زمینی حقیقت کا ادراک کرکے کام کیا جائے تو یہ سب کچھ ممکن ہے ۔اسی سلسے میں کسی مہمان نے ٹی وی اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہے ۔ہم چین اور جاپان سے مقابلے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان جیسا کام کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔مجھے یہاں پر بدعنوانی اور سست رفتاری پر ایک سابق وزیر ریل اور جگناتھ مشرا کے بھائی للت نرائن مشرا کی بات یاد آگئی وہ سمستی پور دربھنگہ میٹر گیج لائن کو براڈ گیج کرنے کے منصوبہ کا افتتاح کرنے سمستی پور (بہار)ریلوے اسٹیشن گئے تھے وہاں انہوں نے اس افتتاحی تقریب میں کہا تھا کہ ریلوے کو اتنی آمدنی ہے کہ اس کی پٹریاں سونے کی بن جائیں ۔اس افتتاحی تقریب کے خاتمے پر پلیٹ فارم پر ہی بم دھماکہ میں ان کی موت واقع ہو گئی لیکن یہ بات اب شاید پردہ میں نہیں ہے کہ ریلوے کی آمدنی جاتی کہاں ہے ؟
مودی حکومت کے آتے ہی جب مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا اور ریل کرایہ میں اضافہ کیا گیا تو کہا گیا کہ ملک کو ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے کڑے فیصلے تو لینے ہی ہوں گے ۔اور عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کڑوی دوا تو پینی پڑے گی ۔ظاہر سی بات ہے کہ مریض کی شفا یابی کے لئے اسے کڑوی دوا دینی ہو تی ہے بسا اوقات معاملہ زیادہ بگڑ جائے تو آپریشن بھی کرنا پڑتا ہے ۔لیکن بعض اوقات دوا کا رد عمل مریض کو اچھا کرنے کی بجائے اسے موت کے منھ میں پہنچادیتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ دوا بھی مریض کے حالات اور عمر کے مطابق دی جاتی ہے ۔اس لئے یہ سخت فیصلے اور کڑوی دوا امبانی اور ٹاٹا جیسے لوگوں کیلئے ہو تو بہتر ہے ۔ملک کے عام آدمی کی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ کڑوی دوا کو برداشت کر جائے ۔اسے تو صاف شفاف آب وہوا میں ہی صحت یابی کی امید ہے لہٰذا مودی اگر عوام کو صاف و شفاف فضا مہیا کراپائیں تو یقینا عوام کی توقعات پوری ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔لیکن انہوں نے بغیر عمر اور مریض کی حالت جانے سب کو ہائی پاور اینٹی بایوٹک دینے کی کوشش کی تو مریض کے اللہ کو پیارے ہونے کی امید زیادہ ہے ۔ان کی اس کڑوی اور ہائی پاور دوا کو صرف امبانی اور ٹاٹا ہی برداشت کر پائیں گے وہ انہیں ہی کڑوی دوا پلائیں اور عوام کو بخش دیں تو ان کا احسان ہوگا۔لیکن اگر موجودہ ریل بجٹ میں لالو پرساد کی زبان میں ’’جو کچھ لکھ کر دیا گیا وہ انہوں نے فٹافٹ پڑھ دیا‘‘والا معاملہ ہے تو پھر ساری باتیں ساری امیدیں فضول ہیں ۔اچھے دن شاید کبھی نہ آئیں ۔فی الحال تو ایساہی لگتا ہے۔(یو این این)