ظفر آغا
سونیا گاندھی نے آج ہر یانہ کے مسلم اکثریتی علاقہ میوات میں ایک چناوی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پارلیمانی چناﺅ کا ایجنڈا محض ترقی نہیں ہے۔ سونیا نے کہا کہ ان چناﺅ میں ملک کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ خطرے میں ہے اس لئے ان چناﺅ میں سیکولرزم اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور تحفظ بنیادی مسئلہ ہے۔ سونیا گاندھی نے میوات میں ایک کثیر مجمع کے سامنے بی جے پی لیڈر نریندر مودی کے گجرات ماڈل کے مقابلے اس بات کا اعلان کیا کہ ان کی پارٹی ملک میں ہر شہری کے برابر ی کے حقوق کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اتوار یعنی 30 مارچ کو پارٹی چناوی کمپین کی باقاعدہ شروعات کر کے کانگریس کے حامیوں میں پھر سے امید پیدا کردی۔ سونیا نے اپنی چناوی مہم کا آغاز آسام اور دہلی سے کیا۔ دہلی کے اجمل خان پارک میں انہوں نے ایک کثیر مجمع کو خطاب کیا۔ دہلی کی ان کی تقریر کا اہم پہلو ”گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کی فکر تھی۔ انہوں نے اجمل خان پارک دہلی میں اعلان کیا کہ ”کانگریس نے ہمیشہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کا کام کیا ہے جبکہ بی جے پی نفرت کی سیاست کا بیج بو کر ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہے“۔ سونیا کے بقول اگر ملک میں گنگا جمنی تہذیب کمزور پڑی توملک کمزور ہوجائے گا۔
سونیا گاندھی کی چناوی مہم کے شروعاتی دور سے سب سے اہم پہلو جو اجا گر ہوا وہ کانگریس کی مسلم ووٹ بینک پر خصوصی نگاہ کا ہو نا ہے ۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے جن دو مقام سے اپنی چناوی مہم کا آغاز کیا ان دونوں مقام میں مسلم ووٹ بینک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آسام میں تقریباً 28 فیصد مسلم آبادی ہے۔ آسام میں کوئی بھی پارٹی مسلم حمایت کے بغیر چناﺅ میں کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ سونیانے آسام سے کانگریس کی چناوی مہم کا آغاز کر یہ سگنل دیا کہ کانگریس پارٹی نہ صرف مسلم حمایت کے لئے کمر بستہ ہے بلکہ پارٹی مسلم ووٹ بینک کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ سونیا گاندھی نے اس بات کو اجمل خان پارک دہلی میں بالکل واضح کردیا کہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے ’ہندوتو ماڈل ‘کے مد مقابل ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو فوقیت دیتی ہے اور اس کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہے۔ سونیانے اس بات کا اعلان یہ کہہ کر کیا کہ ”ہمیں اقتدار کی نہیں اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی فکر ہے۔“ سونیا کو ملک کے آئین کے تحفظ کی فکرہے۔ ان کے بقول ”ہم کو ایسی حکومت چاہئے جو آئین کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے ملک کے ہر شہری کو برابر کے حقوق دیں“۔یہ بات وہ اس پس منظر میں کہہ رہی تھیں کہ مودی ماڈل میں اقلیتوں کے نہ صرف وہ حقوق ختم کئے جاسکتے ہیں جو ان کو آئین سے حاصل ہیں بلکہ ان کو گجرات کی طرح اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بھی بنا یا جاسکتا ہے۔
سونیا گاندھی کی چناوی مہم کے آغاز کے بعد حالیہ چناوی مہم دو نظریاتی خیموں میں بالکل بٹ گئی ہے۔ ایک جانب ’مودی ماڈل‘یعنی ہندوتو کا وہ ماڈل ہے جس میں اقلیتوں کے ساتھ گجرات جیسا سوتیلا سلوک کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری جانب سونیا گاندھی کا کانگریس ماڈل ہے جس میں گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کے ساتھ اقلیتوں کا برابری کا حق برقرار رکھا جائے گا۔ اب جیسے جیسے چناوی مہم تیز ہوگی ویسے ویسے ان دو نظریات کے درمیان تضاد بڑھنے کی امید ہے اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ سن 2014 کے چناﺅ ’مودی ماڈل‘ بنام گنگا جمنی تہذیب کا رخ لے لیں گے اور چناﺅ آخر مودی اور سونیا کے درمیان ایک جنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔