لندن: وزیر اعظم نریندر مودی کے استقبال اور اگلے ماہ برطانیہ کے ان کے مجوزہ دورہ کو تاریخی بنانے کے لئے یہاں مختلف سطحوں پر پورے زور وشو رسے تیاریاں جاری ہیں اور اس دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کا اضافہ ہونے کی امید کی جارہی ہے ۔
لندن کے دورے پر آئے ہوئے ہندوستان کے مختلف علاقائی زبانوں کے اخبارات کے نمائندوں سے آج یہاں فارن اورکامن ویلتھ دفتر میں بات کرتے ہوئے برطانوی محکمہ خارجہ کے ایک ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دورے کو کافی اہم سمجھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیا ن مختلف شعبوں میں کافی خوشگوار تعلقات ہیں تاہم ان کو مزید وسعت دینے اور مستحکم کرنے کے کافی امکانات ہیں اور وزیر اعظم مودی کے اس دورہ سے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے میں کافی مدد ملے گی۔
گوکہ وزیر اعظم مودی کے دورہ کی حتمی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے تاہم 11تا 13 نومبر کو برطانیہ کا دورہ کرنے کا امکان ہے اور اس مرتبہ وہ دیوالی لندن میں مناسکتے ہیں۔جب ہم نے اس سلسلے میں برطانوی وزارت خارجہ کے ذرائع سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی جب بھی آئیں یہاں ان کا شاندار خیر مقدم کیا جائے گا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال اور وفد کی سطح پر بات چیت کے علاوہ مشہور ویمبلی گراونڈ میں ایک بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کریں گے ۔ اس میدان میں 60ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے تاہم 70ہزار سے زیادہ لوگوں کی شرکت کا امکان ہے ، اس کے لئے ابھی سے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں برطانوی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ ہندوستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان وزیر اعظم مودی کے میک ان انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا ، کلین انڈیا، اسمارٹ سٹی جیسے مہم کو کامیاب بنانے میں برطانیہ اور برطانوی کمپنیوں کی مہارت اور تجربہ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اسمارٹ سٹی کے قیام کے سلسلے میں برطانیہ کو کافی تجربہ حاصل ہے اوراس سے ہندوستان فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔
انہوں نے بتایاکہ ہندوستان نے جن 99 شہروں کو اسمارٹ سٹی کے لئے منتخب کیا ہے ان میں تین شہروں کو برطانیہ کی مدد سے اسمارٹ سٹی میں تبدیل کرنے کا معاملہ تقریباََ طے ہوچکا ہے ۔ایک دیگر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سول نیوکلیائی تعاون کے سلسلے میں ابھی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہے اور دونوں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ ہندوستان کے ساتھ دفاعی شعبے میں اپنے تعاون کو بڑھانا چاہتا ہے ۔انہوں نے بتایاکہ دونوں ملکوں نے ماحولیاتی تبدیلی، کلین انرجی جسے دنیا کو درپیش بڑے مسائل پر مشترکہ تحقیق کا فیصلہ کیا ہے اور برطانیہ اس مد میں 160ملین پونڈ خرچ کرے گا۔برطانوی وزارت خارجہ کے ذرائع نے کہا کہ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اقتصادی رشتے کافی اچھے ہیں اورجی 20کا کوئی ملک ہندوستان میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کرتا ہے جتنا کہ برطانیہ کررہا ہے ۔برطانیہ ہندوستان میں جتنی سرمایہ کاری کررہا ہے وہ یوروپی یونین کے 27ملکوں میں مجموعی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے ۔دوسری طرف آج اس ملک میں سب سے بڑی مینوفیکچرنگ کمپنی ایک ہندوستانی — ٹاٹا ، کی ملکیت ہے اور ہندوستان کی راست سرمایہ کاری کے سبب پچھلے سال برطانیہ میں 8000نئی ملازمتیں شروع ہوئیں۔لیکن ترقی کے لئے اب بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں، اب بھی ایسے بہت سارے مواقع موجود ہیں جن کے ذریعہ دونوں ملکوں کے عوام قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔برطانوی وزارت خارجہ کے ذرائع نے تاہم کہا کہ برطانوی کمپنیاں اور تاجر چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں تجارت اورسرمایہ کاری کی راہ میں حائل اڑچنوں اور قوانین کو دور کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نریندر مودی حکومت کی اقتصادی اصلاحات کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے ، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ متنازع آراضی تحویل بل ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے ۔
خیال رہے کہ حالیہ عرصے میں ہندوستانی طلبہ کو تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ آنے میں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، جب برطانوی وزارت خارجہ کے ذرائع کی توجہ اس جانب مبذول گئی تو انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ہندوستانی طلبہ کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز برتا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ اعلی تعلیم کا اہم مرکز ہے اور یہاں ہر ملک کے طالب علموں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے نے تاہم تسلیم کیا کہ بعض قانونی اور دیگر اسباب کی بنا پر ملازمت کے لئے آنے والوں کو تھوڑی دقت ضرور ہورہی ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ہندوستان پاک مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرتا ہے تو کیا برطانیہ ہندوستان کی تائید کرے گا تو انہوں نے کہاکہ برطانیہ دہشت گردی کو ایک بڑی لعنت سمجھتا ہے اور وہ دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف کارروائی کے حق میں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو دہشت گردی کے مسئلے کو آپس میں ہی حل کرنا چاہئے ۔