ڈاکٹر مظفر حسین غزالی۔
عالمگیریت گلوبولائزیشن کے نتیجہ میں ملک غریبی ، مہنگائی ، بھک مری اور کرپشن جیسے مسائل سے دوچار ہے ۔ ان مدوں کو لیکر پچھلے چار پانچ سالوں سے ملک میں تحریکیں چل رہی ہیں کسانوں کی مہم ، انا تحریک اور مزدوروں کے آندولن اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ دیش کے ہر طبقے میں بے چینی اور کانگریس کے رویہ سے مایوسی ہے ۔پھر بھی بی جے پی نریندر مودی کے چہرہ اور بیانات سے قوم پرستی یا فرقہ واریت پر زور دے رہی ہے اس کے نتیجہ میں پورا چنائو مدوں سے ہٹ کر فرقہ پرستی کے ارد گرد گھومنے لگا ہے ۔
مودی کو ہندو راشٹر وادی کے طور پر پیش کر سنگھ نے لوک سبھا چنائو میں ان کے رول کو اہم بنادیا ہے ۔اتنا ہی نہیں مودی کے راستہ میں رکاوٹ بننے والے سبھی دگگجو کو اپنی حد میں رہنے کی صلاح دی گئی ہے یا پھر باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے ۔پارٹی اور پارٹی کی لیڈر
شپ پر مودی کو فوقیت دیکر بھاجپا کے انتخاب کا نعرہ بنا ’’ اب کی بار مودی سرکار‘‘ ۔
نریندر مودی کو جس طرح لانچ کیا گیا ہے اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔کیا سنگھ مرکز میں بی جے پی سرکار نہیں چاہتا ؟ کیا وہ اس چنائو کو اپنے نظریہ کے فروغ کے لئے اہم موقع تصور کررہا ہے ؟ کیا سنگھ کانگریس کو ہرانے کے بجائے صرف اسے کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ کیا جے ڈی یو سے بھاجپا کا رشتہ ٹوٹنا سنگھ کی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ کیا سنگھ کا نظریہ دیش اور دیش کے مسائل سے اوپر ہے ۔ وغیرہ اسے سوالات ہیں جن کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں ۔
بی جے پی کے مودی کی قیادت میں انتخاب میں اترنے سے سب سے زیادہ راحت کانگریس کو ملی ہے کانگریس کے خلاف عوام کی ناراضگی اور غصہ اور اس کے رویہ سے مایوسی کو فرقہ وارایت کے مدے نے ڈھک لیا ہے ۔ کانگریس کو غریبی ، مہنگائی ، کرپشن جیسے سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ خود سوال کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے کہ کیا ملک کو فرقہ پرست ہاتھوں میں سونپ دیا جائے ۔ اس چنائو میں مسلمان کانگریس سے یہ پوچھ سکتے تھے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو جھوٹے معاملات میں کیوں پھنسایا جا رہا ہے ۔سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کا کیا ہوا ۔ ان کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہے ۔ اس کو سدھار نے کے لئے کانگریس نے کیا اقدامات کئے ؟ کانگریس کو ان سوالات سے بچنے کا موقع مل گیا ۔ بلکہ مودی کے پوسچر (شبہہ)کی وجہ سے کسی مسلمان نے کانگریس سے کوئی سوال تک کا نہیں کیا ۔ اب جبکہ چنائو آخری مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے وہی وعدہ دہرایا ہے جس سے وہ پچھلے دو لوک سبھا انتخابات میں بھنا چکی ہے ۔ دلت مسلمانوں کو ایس سی ایل ٹی کا درجہ 4.5فیصد پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن۔
غور طلب بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدہ کے دعویدار کے طور پر پیش کرنے کے لئے جو طاقت ملی وہ کانگریس کے دور حکومت کی ہی دین ہے جبکہ مودی کو گجرات کے علاوہ کسی بھی ریاست کے چنائو پرچار میں کامیابی نہیں ملی ۔ایک اہم پہلو یہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ مودی کو ہندو تو وادکے ساتھ پسماندہ طبقات کے لیڈر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔سنگھ اور بھاجپا کی یہ سوچ ہے کہ پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کے بیچ مودی کو ان کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ ان کی حمایت بھی پارٹی کو مل سکے ۔اگر بی جے پی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1991میں جب اس وقت کی وی پی سنگھ سرکار نے پچھڑوں کے لئے ریزرویشن لاگو کیا تھا تو ہندو تو وادی تنظیموں نے ا یک طرف اس کی مخالفت کی تو دوسری طرف پچھڑوں کے درمیان ذات برادری کو بڑھاوا دیا ۔ ذاتی واد سے برہمن واد محفوظ رہا ۔