نئی دہلی ، 7 نومبر: مشہور ہندستانی شاعر سندیپ سیلاس اور پاکستان کے گلوکار شفاقت علی خان نے صوفیانہ کلام کے مداحوں پر سحر طاری کردیا اور اس بات کی روشن مثال پیش کی کہ موسیقی ملکوں کے درمیان سرحدوں کو مٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
رضاکار تنظیم احساس فاؤنڈیشن نے موسیقی کے “امن کے پل‘‘ کے ذریعہ ممالک کے درمیان بھائی چارہ کو فروغ دینے کیلئے اس انوکھی پہل “عبادت امن‘‘ کا تیسرا پروگرام پیش کیا جس میں سندیپ کے صوفیانہ کلام اور شفاقت کی گائیکی نے سماں باندھ دیا۔
اس پروگرام سے محظوظ ہونے والوں میں اطلاعات و نشریات کے وزیر منیش تیواری ، پلاننگ کمیشن کی ممبر سکریٹری سدھاپلے اور یو این آئی کے چیرمین وشواس ترپاٹھی بھی شامل تھے۔
اس موقع پر مسٹر منیش تیواری نے ہندستان اور پاکستان کے درمیان لوگوں کے رشتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موسیقی اور شاعری کے ذریعہ پڑوسی ممالک کے درمیان امن کی نئی مشعل جلائی جاسکتی ہے اور ہم اس طرح کے پروگراموں کے توسط سے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کو امن کا پیغام دے سکتے ہیں۔
اس موقع پر ایک ایلبم “عبادت عشق‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔
پروگرام کے دوران غزل گائیکی کے شہنشاہ مہندی حسن ، ریشما، جگجیت سنگھ اور فلمی گلوکار مناڈے کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔
مسٹر وشواس ترپاٹھی نے “عبادت امن‘‘ پروگرام کے نظریہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ موسیقی لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
سندیپ سیلاس کا“ امن کے پل ‘‘کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں بہت بڑا رول رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہندستان اور پاکستان کے درمیان موسیقی کے ذریعہ امن قائم کرنے کی کوشش کے تحت 2011 میں یہ پہل کی تھی اور یہ عبادت امن کا تیسرا پروگرام تھا۔
سیلاس نے کہا “یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ملکوں کے درمیان امن کی خواہش اور کوشش کریں۔
استاد شفاقت علی خان نے کہا موسیقی زندگی کی روح ہے۔ یہ دلوں کو جوڑتی ہے ، پل بناتی ہے ، لوگوں کو ملاتی ہے امن اور بھائی چارہ پیدا کرتی ہے اور اعتماد اور اعتبار کا ماحول تیار کرتی ہے کوئی اور
استاد شفاقت علی خان ہند و پاک کے بڑے کلاسیکی گائیکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ مشرقی پنجاب کے شام چوراسی گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے سات سال کی عمر سے گانا شروع کردیا تھا وہ ساری دنیا میں پروگرام پیش کرکے تعریف و توسیف حاصل کرچکے ہیں انہیں متعدد ایوارڈ ملے ہیں۔
سال 2009 میں صدر پاکستان نے انہیں سول سوسائٹی کے سب سے بڑے ایوارڈ “پرائڈ آف پرفارمینس‘‘ سے نوازا تھا۔
سندیپ سیلاس شاعرہیں ان کا آگرہ کی گونا گوں روایات سے رشتہ ہے ۔ انہوں نے ایک انوکھے نظریہ “امن کی مالا‘‘ کو عملی روپ دینے کا کام کیا ہے۔ ان کا یہ پروجیکٹ ہے کہ دنیا میں جنگ سے تباہ تمام کھنڈروں کو “امن ورثہ‘‘ قرار دیا جائے ۔ یہ امن کی تعمیر، امن کی تعلیم اور امن کی سیاحت کی جانب سے ان کا ایک او رقدم ہوگا۔
احساس فاؤنڈیشن کے صدر راجندر کمار نے یو این آئی کو بتایا کہ آئندہ برس سے اس پروگرام کے دوران ان چنندہ لوگوں کو اعزاز دیا جائے گا جنہوں نے ہندستان اور پاکستان کے درمیان امن کو فروغ دینے میں خدمات انجام دی ہیں۔
وسیلہ یہ سب نہیں کرسکتا۔ شورش زدہ دنیا کو اس کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔