لکھنؤ۔(نامہ نگار)کانگریس کی قدآور لیڈران میں شمار سابق وزیراعلیٰ ہیم وتی نندن کی بیٹی ڈاکٹر ریتا بہو گنا جوشی نے لکھنؤ پارلیمانی نشست سے اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی صدر راج ناتھ جھوٹے دعوے کرکے عوام کو گمراہ کررہے ہیں لیکن لکھنؤ کے لوگ ان کے ورغلانے میں نہیں آنے والے اترپردیش میں موجودہ انتخاب میں ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے سابق ریاستی کانگریس صدر نے کہا کہ انتخاب کے بعد بی جے پی کے لوگ دوگروپوں میں تقسیم ہوجائیں گے ۔ اس طرح پارٹی کے اندر بغاوت ہورہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی لیڈروں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے ۲۰۰۹کے پارلیمانی انتخابات میں اٹل بہاری باجپئی کی میدان عمل میں موجودہ رکن پارلیمنٹ لال جی ٹنڈن کو ٹکر دے کر ۳۔۲۷فیصد ووٹ اپنے حق میں کرنے اور کانگریس کو مضبوط بتاتے ہوئے ڈاکٹر ریتا بہوگنا جوشی نے کہا کہ لکھنؤ میں اس مرتبہ کانگ
ریس کاپرچم لہرائے گا جسے نہ بی جے پی روک سکتی ہے اور نہ دیگر پارٹیاں۔ آگ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریتا بہوگنا جوشی نے کہا کہ ہم نے تقریباً پورے شہر میں لوگوں سے رابطہ کیا ہے۔ ہم جہاں بھی گئے ہیں سب لوگوں نے اپنائیت کا اظہار کیا ۔میری بات سنی ، یقین دلایا اس پر میں قائم ہوں یہ وہی لکھنؤ کے عوام ہیں جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا تو رکن پارلیمنٹ بھی بنائیں گے۔ پیش ہے ان سے سوال وجواب کا سلسلہ:
سوال ۔عوام کے درمیان بہتر رابطہ اورمکالمہ کا دعویٰ کیا ووٹ میں تبدیل ہوگا ۔
جواب ۔ڈاکٹرریتا بہو گنا جوشی نے کہا کہ یقیناً تبدیل ہوگا اس مرتبہ لکھنؤ کے عوام بی جے پی صدر راج ناتھ کے دوہرے رویے سے آشنا ہوگئے ہیں۔ اٹل بہاری باجپئی کے میدان عمل کو بتاکر وہ لکھنؤ کے لوگوںکا ووٹ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔لکھنؤ کے عوام اس مرتبہ کانگریس کے ساتھ ہیں۔
سوال۔ اس کی بنیاد کیا ہے؟
جواب۔ خود اعتمادی اور یقین ہم نے پورے لکھنؤ کا دورہ کیا ہے جہاںبھی لوگوں کے پاس گئے سب نے اپنائیت دکھائی میری بات سنی ،بھروسہ دیا اسے میںکیسے بھول سکتی ہیںیہ وہی لکھنؤ کے عوام ہیں جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اب رکن پارلیمنٹ بھی بنائیں گے۔
سوال۔بی جے پی لیڈر مسلسل سونیا گاندھی پر الزام عائد کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنے داماد کو اقتدار کا فائدہ دیا۔
جواب۔ بی جے پی کانگریس کی مقبولیت سے گھبرارہی ہے۔ اس کے پاس مدعہ نہیں ہے اس لئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ بہتر ہوتا کہ بی جے پی لیڈر دوسروں پر الزام تراشی سے قبل اپنے گریباں میں جھانکنے کوشش کرتے تو کم سے کم انہیں اپنی اصلی صورت تو دکھائی دے جاتی۔
سوال۔ تو پھر اس معاملے میں سونیاگاندھی اپنا رد عمل کا اظہار کیوں نہیںدیتی؟
جواب۔ ضروری نہیں کہ ہرکسی کے سوال کا جواب سونیا جی دیں۔ ملک کے عوام سونیا گاندھی کو بہتر طور پر جانتے ہیں ۔ جنہوں نے وزیراعظم کے عہدے کو منظور نہیں کیا۔ کانگریس برائے الزامات کی سیاست نہیں کرتی۔
سوال۔ یوپی میں کانگریس کے پاس ۲۱نشستیں ہیں۔ ان نشستوں پر بھی ایس پی ، بی ایس پی اور بی جے پی زبردست مقابلہ کررہی ہیں ۔ آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ اترپردیش کی انتخابی حکمت عملی میں کوئی کمی رہ گئی ہے؟
جواب ۔ دیکھئے ، کانگریس عوام سے براہ راست بات کرنے والی تنہا پارٹی ہے ۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے جس طرح چوپال لگاکر عوام کی فریاد سنی اور ہزاروںلوگوںنے اعتماد کیا۔ دوسری بات کانگریس نے کبھی انتخابات میں کامیابی کیلئے غلط طریقوںکا سہارا نہیںلیا۔ کانگریس پارٹی ہمیشہ تمام طبقوں کو ساتھ لیکر چلی اور چلتی رہے گی۔
سوال۔ بی جے پی جیسی انتخابی دھار کانگریس میں کیوںنہیں دکھائی دیتی؟
جواب۔ بی جے پی جھوٹ کی سیاست کرتی ہے صرف مودی ۔مودی کی ہی بات کی جارہی ہے۔ مودی کی کتنی مقبولیت ہے یہ گجرات جاکر دیکھاجاسکتاہے۔ کانگریس انتخابی تام جھام سے نہیں، عوام کے پاس جاکر ان کا دل جیتنا چاہتی ہے۔ صرف وعدے کرکے انہیںکبھی پورا نہ کرنے والی بی جے پی ، سماجوادی پارٹی وبی ایس پی کی طرح نہیں بننا چاہتی ہے۔
سوال۔ ملک میں مبینہ طور پر مودی لہر کے درمیان کانگریس خود کوکس مقام پر سمجھتی ہے؟
جواب۔ دیکھئے، پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں کہیںمودی لہرنہیں یہ بی جے پی کا طریقہ ہے جو انتخاب ختم ہونے کے بعد سب پرظاہر ہوجائے گا۔ رہی بات کانگریس کی وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر اس مرتبہ انتخاب میں ریکارڈ سیٹوں پر کامیاب ہو گی۔
سوال۔ ۳۳نشستوںمیں سے ووٹنگ کے بعد کانگریس کو کتنی نشستیں ملنے کی امیدہے؟
جواب۔ صرف ۳۳سیٹیںہی نہیں پورے اترپردیش کے انتخاب میں تقریباً ۶۰نشستیں کانگریس کے پاس آرہی ہیں۔ اب جہاںجہاں الیکشن ہورہاہے وہاں پر کانگریس کی پوزیشن مستحکم ہے تمام امیدواروں نے کافی محنت کی ہے اس محنت کا پھل ضرور ملے گا۔
سوال۔ اترپردیش بی جے پی میں جس طرح اندرونی اختلاف ہوا تھا اس کا فائدہ کانگریس اٹھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوااسے حکمت عملی کی خامی کہا جائے گایا کچھ اور؟
جواب۔ کانگریس نے موقع پرستی کی سیاست کبھی نہیںکی یہ صرف بی جے پی ہی کرسکتی ہے۔ بی جے پی کی تاریخ گواہ ہے اس نے ہمیشہ موقع پر ستی کا فائدہ اٹھایا ہے اب اٹل جی کی بھتیجی کروڑاں کو ہی لے لیجئے ۔ اٹل جی کے نام کی مالا جپنے والے بی جے پی کارکنان اب انہیں بھول گئے ہیں۔ یہ بی جے پی کارکنان اچھی طرح جانتے ہیں۔اس لئے پارٹی میں بغاوت کے آثار پیدا ہوئے ۔ آج پارٹی کے جو کارکنان دوسروں کے خلاف الزام عائد کررہے ہیں۔ انتخاب کے بعد وہ ایک دوسرے پرحملہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔