(قدیم استا ذ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ)
نظیف الرحمن سنبھلی
مولانا نسیم احمد فریدی علیہ الرحمہ ہمارے ماموں ، حکیم محمد احسن مرحوم کے یہاں سال میں ایک دو دفعہ ضرور آیا کرتے تھے۔چوں کہ حضرت کی بینائی جاتی رہی تھی اس لئے ان کے شاگرد مولوی محب الحقؒ رہبر اور خدمت گار کی حیثیت سے ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔اس وقت راقم ان کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا تھا۔مگر یہ بہت پہلے کی بات ہے۔اب جب کہ میں نے ‘‘مولانا آزاد کی کہانی‘‘سے متعلق ایک مضمون لکھا اور وہ کچھ اخباروں میں چھپا تب ان سے رابطہ کی شکل نکلی۔دو ایک بار فون پر بات ہوئی۔خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد انھوںنے اطلاع دی کہ مولانا فرقان صاحب کے ذریعہ مفتی صاحب کے مقالات جو مرتب کرکے شائع کئے گئے ہیں، بھیج رہا ہوں، جن کی بابت بڑی عاجزی سے کہا کہ آپ بھی ان مقالات کے بارے میں کچھ لکھ دیں۔ہر چند میںنے کہا مجھ سے لکھنا لکھانا نہیں آتا ہے، مگر انکا اصرار جاری رہا۔شاید وہ مفتی نسیم احمد فریدیؒ صاحب کی محبت اور ان سے تعلق کی وجہ سے اتنا اصرار کر رہے تھے جو ایک طرح سے ضد کی حد کو چھو رہا تھا۔بہر حال مفتی فردیدیؒ صاحب اور ان کے شاگرد رشید کی محبت میں ’’سفر نامۂ حج‘‘ اور مقالات جلد اول و دوم پر میںنے تعارفی قسم کے مضامین لکھے جو مختلف اخباروں میں چھپ بھی گئے۔مرحوم کی خواہش کے مطابق ان مضامین کی فوٹو کاپیاں ان کو بھجوادیں۔حضرت مولانا احمد حسن امروہیؒ کی سوانح حیات بھی انھوں نے مجھے بھیجی تھی لیکن اس پر میں کچھ لکھ نہ سکا۔اگر ان کی حیات میں لکھ سکتا ،تو وہ کتنے خوش ہوتے!
یہ تو وہ باتیں ہیں جو مفتی نسیم احمد فریدیؒصاحب کے تعلق سے قلمی کام کے زمرے میں آتی ہیں اور جو مولانا محب الحق صاحب مرحوم سے اصل تعارف کا ذریعہ بنیں۔ویسے ایک دن جب انھوں نے مجھے فون کیا کہ وہ سنبھل میرے غریب خانہ پر تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں، میں نے خوش آمدید کہتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ آپ اس طرح آئیں کہ ناشتہ میرے یہاں کریں جسے انھوں نے بہ خوشی قبول کر لیا۔وہ آئے اور میں چشم حیرت سے انھیں دیکھتا رہا۔حیرت کی وجہ یہ تھی کہ اب وہ ، وہ نہ تھے جیسا کبھی پہلے ان کو دیکھا تھا۔داڑھی پہلے بھی شرعی تھی مگر سیاہ ریش۔اب تو اچھے خاصے بزرگ لگ رہے تھے۔اگرچہ صورت و شکل اور جسامت کے اعتبار سے لگ نہیں رہا تھا کہ انھیںکوئی عارضہ ہوگا۔خیر ناشتہ ہوتا رہا اور باتیں بھی۔باتیں اپنی کم مفتی صاحب کی زیادہ۔میں نے مفتی صاحب کا انداز گفتگو دیکھا ہے۔ ان کی باتیں سننے کا متعدد بار موقع ملا۔ان کے یہاں جس طرح کی سادگی،بے نیازی اور اپنے آپ کو چھوٹا ظاہر کرنے والی بات تھی، یہ اوصاف مرحوم کی شخصیت ، میں بھی نظر آتے تھے۔بلا شبہ یہ سب کچھ مفتی صاحبؒ کی تربیت اور انکی برکت کا ثمرہ ہی ہوںگے۔
یاد داشت بھی مرحوم کی بہت اچھی معلوم ہوتی تھی۔ایک بار مجھے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒکے کسی استاد کے بارے کچھ اشتباہ تھا، فون پر مرحوم سے معلوم کیا۔آپ نے استاد کا نام اور کالج [شاید عرب کالج دہلی]کا نام بتلایا۔جہاں تک مولانا مرحوم کی تحریری صلاحیت کا تعلق ہے،اس کے بارے میرا خیال ہے ، کہ مفتی صاحبؒ کی تربیت سے اس میں نکھار آیا ہوگا۔یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہر مصنف کے اندر اپنا ایک مصنف چھپا ہوتا ہے۔ بس اسے جگانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مفتی صاحب نے ان کے اندر کے مصنف کو جگایا ۔مختصر یہ کہ مولانا مرحوم نے اپنے استاد کے علم و قلم سے خوب استفادہ کیا اور ان کے سادہ اور دلنشیں طرز تحریر کو اپنایا۔جس کے ثبوت میں ان کے اس مضمون کو خاص طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو’’ الفرقان‘‘ کی خاص اشاعت ’’ مفتی نسیم احمد فرید نمبر‘‘میں شائع ہوا تھا۔اس کے علاوہ مقالات میں افتتاحیہ کے طور پر مولانا نے جوتعارفی مضامین لکھے ہیں، وہ بھی اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ ایک اچھے نثر نگار تھے۔مولانا نے جو کچھ بھی لکھا اس میں ان کا خلوص اور مفتی صاحب مرحوم سے بے پناہ محبت شامل ہوتی تھی۔اس کی گواہ انکی تصانیف ہیں۔جن کے بارے میں دوسرے اہل علم لکھیںگے۔
نہیں۔
مولانا کی بیماری وغیرہ کی کوئی اطلاع پہلے سے نہیں تھی۔اچانک عزیزم مولانا عمران ذاکر صاحب نے ایک دن اطلاع دی کہ یکم ستمبر بروزاتوار آپ کے مولانا محب الحق صاحب کا انتقال ہو گیا۔یہ خبر سن کر بہت قلق اور رنج ہوا اور اناللّٰہ و انا الیہ راجعون کے الفاظ زبان پر آ گئے۔اللہ رب العزت کی بار گاہ میں دعا ہے کہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی قبر کو اپنی رحمت سے بقعہٗ نور بنا دے۔جانے کو تو سب جاتے ہیں مگر بعض لوگوں کا جانا زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔در اصل وہ،وہ کام کر رہے تھے جو کسی اکیلے آدمی کے بس کا کام نہیں ہوتا۔خدا کرے کوئی صورت ان کے کام کو جاری رکھنے کی نکل آئے دیکھئے ع
کون ہوتا ہے عریف مے مرد افگن عشق
مولانا کا وطن پروہی مدھو بنی[بہار]ہے۔امروہہ سے میت کو وہیں لے جایا گیااور وطن عزیز کی مٹی ہی مرحوم کی آخری آرام گاہ بنی۔
آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ جس سبزہ زار میں آپ مدفون ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا رہے۔اور مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے[آمین]
آسماںتیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
قلم برداشتہ لکھ رہا ہوں ، یہاں ایک بات اور یاد آگئی، وہ یہ کہ مولانا مرحوم کا ارادہ اپنے استاد اور مرشد مفتی نسیم احمد فریدیؒکی سوانح لکھنے کا تھا،امید کی جانی چاہئے کہ یہ کام بھی انشاء اللہ تکمیل کو پہنچے گا۔
مرحوم کا اخلاق بلند تھا۔وہ مجھ جیسے بے علم سے اس طرح پیش آتے جیسے میں بھی کوئی عالم دین ہوں۔حالاں کہ علم دین سے تو میرا دور کا بھی واسطہ