ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی کا ممکنہ علاج دریافت کر لیا گیا ہے جس نے ایک بہت بڑے تحقیقی تجربے میں حصہ لینے والے بچوں کی زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔
تجربے میں ۸۵بچوں کو شامل کیا گیا۔ ا
نھیں شروع شروع میں روزانہ مونگ پھلی سے بنی ہوئی پروٹین تھوڑی تھوڑی مقدار میں دی گئی، اور پھر تجربے کے اگلے مراحل میں یہ مقدار بتدریج بڑھائی گئی۔ایک جریدے میں شائع ہونے والے تحقیق کے نتائج کے مطابق تجربے کے چھ ماہ بعد ۸۴ فیصد بچے روزانہ مونگ پھلی کے پانچ دانے کھانے کے قابل ہو گئے۔ کیمبرج کے ایک ہسپتال میں کیے جانے والے اس تجربے کا مقصد مونگ پھلی کی الرجی کے کے خلاف بچوں کی قوت مدافعت کو بڑھانا تھا۔واضح رہے کہ خوراک سے ہونے والیف قسم کے ردِ عمل (الرجیز) میں سے مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سب سے زیادہ مہلک ہے۔ اب تک اس الرجی کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے، اور اس الرجی کے شکار لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مونگ پھلی سے عمر بھر پرہیز کریں اور ہر کھانے کے پیکٹ کو بار بار پڑھیں کہ کہیں اْس میں مونگ پھلی تو استعمال نہیں ہوئی۔اگرچہ اس تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں اور اِس موضوع پر موجود معلومات میں بڑا اضافہ ہے، تاہم ہمیں اس سلسلے میں مزید تجربات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے اس نئے علاج کو سراہا ہے، تاہم انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ابھی اس علاج کو بڑے پیمانے پر استعمال نہ کیا جائے۔کیمبرج یونیورسٹی ہسپتال کی ڈاکٹر پامیلا اِیوان نے بی بی سی کو بتایا کہ مونگ پھلی کی الرجی پر تحقیق میں مذکورہ تجربہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور دنیا میں اِس نوعیت کا یہ سب سے بڑا تجربہ ہے کہ جس کے نتائج اتنے زیادہ مثبت رہے ہیں۔دوسری جانب امپیریل کالج لندن کے الرجی کے شعبے کے ایک پروفیسر بیری کے کا کہنا ہے کہ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس تجربے میں حصہ لینے والے بچوں پر نئے علاج کے مثبت اثرات کب تک رہتے ہیں۔ اْن کے بقول دوسری اہم بات یہ دیکھنی ہوگی کہ ان بچوں کو بار بار مونگ پھلی سے بنی پروٹین کھلانے کے کوئی دوسرے منفی اثرات تو نہیں ہو رہے۔انھوں نے مزید کہا: ’اگرچہ اس تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں اور اِس موضوع پر موجود معلومات میں یہ ایک بڑا اضافہ ہیں، تاہم ہمیں اس سلسلے میں مزید تجربات کرنے کی ضرورت ہے۔‘