صحت عامہ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موٹاپا لوگوں کی صحت کے لیے سگریٹ سے بھی بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ عالمی ’فوڈ انڈسٹری‘ کو بھی تمباکو کی صنعت کی طرح کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔کنسیومرز انٹرنیشنل اور ورلڈ اوبیسٹ فیڈریشن نے اپنی رپورٹ میں موٹاپا بڑھانے والی غذاؤں پر پابندی لگانے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ کھانے کے پیٹوں پر موٹاپے سے جسم کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ویسے ہی اشتہار شائع ہونے چاہییں جیسے سگریٹ کے پیکٹ پر ہوتے ہیں۔
فوڈ اینڈ ڈرنک فیڈریشن نے کہا ہے کہ فوڈ انڈسٹری پہلے سے ہی ایسے اقدامات کی حمایت کر چکی ہے۔رپو
رٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں کو اشیائے خورد و نوش پر لازمی اصول لاگو کرنے چاہئے۔تنظیموں کا کہنا ہے کہ سہ ۲۰۰۵ میں موٹاپے اور وزن کی زیادتی کی وجہ سے ۲۶ لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ پانچ سالوں میں یعنی سنہ ۲۰۱۰ تک یہ تعداد بڑھ کر ۳۴ لاکھ ہوگئی۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نئے قوانین میں کھانے کی چیزوں میں نمک، چربی اور چینی کی سطح میں کمی لانے، ہسپتالوں اور اسکولوں میں فراہم کیے جانے والے کھانے کے معیار کو بہتر بنانے، اشتہارات پر سخت کنٹرول اور لوگوں کو اس بارے میں آگہی دینے جیسے اقدامات شامل کیے جا سکتے ہیں۔ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ مصنوعی ’ٹرانس فیٹ‘ کو آئندہ پانچ سال کے اندر اندر تمام کھانوں اور مشروبات سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر بچوں کے لیے بنائے گئے پروگراموں کے دوران ’جنک فوڈ‘ کے اشتہارات پر پابندی ہونی چاہیے۔ انسیومرز انٹرنیشنل کے لیوک اپ چرچ نے کہا ہے کہ تمباکو کی صنعت کی طرح فوڈ انڈسٹری پر بھی عالمی پالیسی کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا: ’ہم ۱۹۶۰ کی دہائی جیسی صورتحال نہیں چاہتے ہیں جب تمباکو کی صنعت کہتی تھی کہ سگریٹ میں کچھ بھی غلط نہیں ہے اور یہ صحت کے لیے اچھی ہے اور ۳۰ یا ۴۰ سال بعد لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔‘اپ چرچ نے کہا: ’اگر ہم آج احتیاط نہیں برتتے تو پھر آنے والے وقت میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔
ورلڈ اوبیسٹ فیڈریشن کی ڈاکٹر ٹم لبسٹ نے کہا ہے کہ ’اگر یہ کوئی متعدی بیماری ہوتی تو اسے روکنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہوتی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’موٹاپا چونکہ چربی اور چینی والے کھانوں کے استعمال سے ہوتا ہے اس لیے پالیسی ساز کارپوریٹ اداروں کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سلسلے میں اقدامات کرنے کے خواہش مند نہیں نظر آتے۔برطانیہ میں ایک ماہرِ صحت نے کہا ہے کہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے خوراک میں چربی کی مقدار کام کرنے کا عہد موٹاپے کے خلاف جدوجہد میں ’سمندر میں قطرے‘ کے برابر ہے۔
برطانیہ کے محکمہ صحت کے مطابق لوگوں کی خوراک میں چربی کی مقدار پندرہ فیصد کم کرنے سے وقت سے پہلے ہونے والی سالانہ ۲۶۰۰ اموات کو روکا جا سکے گا۔ یہ اموات دل کے عارضے اور سٹروک کی وجہ سے ہوتیں ہیں۔محکمہ صحت نے کہا کہ ملک کی خوراک اور خوردہ صنعت میں کام کرنے والی تقریباً آدھی کمپنیوں نے خوراک میں چربی کم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔دوسری جانب پبلک ہیلتھ فیکلٹی کے صدر پروفیسر جان آشٹن نے کہا کہ اس طریقہ کار کی ’کوئی ساکھ‘ نہیں ہے۔پروفیسر آشٹن نے کہا ’بعض کمپنیاں پہلے سے کم چربی والی خوارک تیار کر رہی ہیں‘ لیکن یہ معاہدہ کافی نہیں ہے۔’
وہ چربی کم کرنے کے بعد خوراک کو لذیذ بنانے کے لیے جو نمک اور چینی استعمال کرتے ہیں اس کی مقدار کو بھی کم کریں‘۔انھوں نے کمپنیوں کے معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ جس قدر موٹاپا عام ہے اس کے مقابلے میں کمپنیوں کا اعلان سمندر میں قطرے کے برابر ہے‘۔پروفیسر آشٹن نے کہا ’ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے رضاکارانہ طریقہ کار پر انحصار نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا ’اب اس کی کوئی ساکھ نہیں ہے اور اسے صنعت کی جانب سے اپنے آپ کو بچانے کی ایک کمزور کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
خوراک میں چربی کم کرنے کے سلسلے میں نیسلے نے کٹ کیٹ بسکٹ، موری سن نے اپنے سپریڈز اور سب وے نے اپنے بسکٹ اور کرسپس میں تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔اس رضاکارانہ معاہدے میں شریک دیگر کمپنیوں میں ٹیسکو، سینز بری، الدی اور مانڈیلیز انٹرنیشنل شامل ہیں۔برطانوی محکمہ صحت کے مطابق ایک دن میں ایک مرد کو ۳۰ جبکہ ایک عورت کو ۲۰گرام سے زیادہ چربی نہیں کھانی چاہئے۔