آج کی دنیا میں سونے کا وقت جتنا کم رہ گیا ہے، اتنا ہی نیند میں خلل کے اسباب بھی بڑھ گئے ہیں۔زبردست مقابلہ آرائی اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی بڑھتی ہوئی خواہشات نے انسانوں کو ہر وقت کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔نیند کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ ۱۹۶۰ کی دہائی میں لوگ رات میں تقریبا ۹ گھنٹے سوتے تھے جبکہ اب۷گھنٹے ہوگیا ہے۔نیند ایک فطری دوا ہے۔یہ کتنی بیماریوں کا علاج ہے۔ اکھڑی اکھڑی نیند خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس کے اسباب کے بارے میں جانکاری سے اچھی زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے اور ذیابیطس، دل کی بیماریوں، دل کے دوروں اور اچانک ہونے والی موت کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ خراٹے لینا بھی نیند کی خرابی کی ایک شکل ہے۔ جس سے آدمی دن میں اونگھتا رہت
ا ہے اور اسے بھول جانے، تھکن اور جنسی نے عملی جیسے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔
ہماری جسمانی گھڑی جب قدرتی نظام سے ہم آہنگ رہتی ہے تو سب ٹھیک رہتا ہے۔اکھڑی اکھڑی نیند کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ آہنگ بگڑ گیا ہے۔کوئی کتنا سوتا ہے یہ ہر فرد کے اپنے حالات پر منحصر ہے۔ اگر آپ سو کر اٹھنے پر تازگی احساس نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ٹھیک سے سوئے نہیں ہیں اس لیے اچھی طرح سوئیے اور اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہ کیجیے۔ہر شخص کو کم از کم 6سے 8 گھنٹے سونا چاہیے۔پیشہ ور لوگوں کے لیے زیادہ سونا ضروری ہے کیونکہ انہیں ہو لمحہ ذہن کو مرکوز رکھنا پڑتا ہے۔سافٹ ویئر پیشہ وروں کو بھی بھر پور نیند (آٹھ گھنٹے) لینی چاہیے، کیونکہ انہیں اپنی آنکھیں مسلسل کمپیوٹر اسکرین پر رکھنی پڑتی ہیں جس سے سردرد و غیرہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔میڈیا کے پیشہ وروں کو کم از کم ۶ گھنٹے سونا چاہیے۔ضعیف لوگوں کو کم از کم پانچ گھنٹے کی گہری نیند درکار ہے۔