العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ قدیم اور گنجان آباد علاقہ مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے، جس میں غیرقانونی ورکشاپس اور منشیات کے اسمگلرز شامل ہیں۔ غیرقانونی ورکشاپ میں جعلی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں جبکہ منشیات کے اسمگلرز اس علاقے کی تنگ و تاریک گلیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
یہاں کے ایک رہائشی محمد الشریف کہتے ہیں کہ ٹیکسٹائل کی تجارت کا ہمیشہ اس علاقے سے تعلق رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الغماشہ مارکیٹ یہاں اس علاقے کی واحد عمارت ہے جو منہدم نہیں کی گئی، اس کا نام ٹیکسٹائل کے لیے عربی لفظ قماش سے لیا گیا ہے۔
محمد الشریف نے بتایا کہ ’’کئی دہائیاں قبل چند دکانوں کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا، پھر یہ ملحقہ سڑکوں تک پھیلتی چلی گئی، اور اب اس شہر کی مشہور مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔‘‘
ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کے باشندوں نے اس علاقے کے اصل باشندوں کی نقل مکانی کے بعد یہاں آباد ہونا شروع کردیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر رہائشی اس علاقے میں کاروبار کرتے ہیں یا ان میں مزدوری کرتے ہیں۔
تاہم منشیات کی اسمگلنگ کی طرز کی غیرقانونی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد سے یہ علاقہ توجہ کا مرکز بن گیا۔ الشریف نے کہا ’’بہت سے رہائشیوں نے ان سرگرمیوں کی جروال پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کی اور میئر کے پاس بھی شکایات درج کرائی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’منشیات کے اسمگلر سیکیورٹی مہم شروع ہونے پر غائب ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد واپس آجاتے ہیں۔‘‘
اس علاقے کی تنگ و تاریک گلیاں منشیات فروشوں کو پوشیدہ طور پر غیرقانونی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔
تاہم انسدادِ منشیات کے حکام کے مسلسل چھاپوں کے نتیجے میں ان میں سے کچھ کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
الشریف نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس علاقے پر اپنے کنٹرول میں اضافہ کریں اور اس کی مسلسل نگرانی کریں۔
اس علاقے کا ایک مسئلہ جس نے یہاں کے لوگوں کو پریشان کررکھا ہے وہ ناکارہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔
یہاں کے ایک اور رہائشی سلیم الحربی کہتے ہیں کہ غیرقانونی طور پر سفر کرنے والے جعلی مصنوعات میں اضافہ کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ موٹرسائیکل سواروں کی بڑی تعداد کی موجودگی رہائشیوں کے لیے ایک اور بڑی پریشانی ہے، یہ لوگ مارکیٹ کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں اور یہاں لوگوں کو پریشان اور ماحول کو آلودہ کرتے ہیں۔
سلیم الحربی نے بتایا ’’بچوں، خواتین اور بزرگ افراد نے ان موٹرسائیکل سواروں کی شکایت کی ہے۔ ان میں سے کچھ خواتین کے پرس اور پیدل چلنے والےافراد کا سامان چھیننے جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘‘
یہ علاقہ غیرقانونی گھریلو ملازمین اور ان کے مڈل مین کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جو ان گلیوں کے اردگر د دیکھے جاسکتے ہیں۔