میانمار میں کئی دہائیوں تک فوج کی حکومت رہی اور اس سے قبل تمام انتخابات فوج ہی کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں۔
میانمار میں 2011ء سے حکومت کرنے والی جماعت یونین سولیڈیریٹی ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) جسے فوج کی حمایت حاصل ہے ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے آج ہونے والے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے، اگرچہ برما کے آئین کے تحت آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں۔
ادھر میانمار کے موجودہ صدر تھین سین نے کہا ہے کہ حکام آج ہونے والے انتخابات کے نتائج کا لحاظ کریں گے۔
انھوں نے جمعے کو کہا: ’میں انتخابی نتائج کے تحت قائم ہونے والی نیی حکومت کو تسلیم کر لوں گا۔‘
ایک اندازے کے مطابق میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں 30 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
میانمار کی پارلیمان 664 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں 90 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 6,000 سے زائد امید وار حصہ لے رہے ہیں۔
ان انتخابات کے لیے پارلیمان کی 25 فیصد نشستیں فوج کے نمائندوں کے لیے مختص ہوں گی۔