بولی وڈ اداکار سیف علی خان کو اپنی حالیہ فلم فینٹم کی ریلیز اور اس سے قبل کے متنازع بیان کے باعث پاکستان میں شدید تنقید کا سامنا ہے اور اسی کو دیکھتے ہوئے ڈان نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا ہے۔
ڈان: آپ نے کہا تھا آپ کو پاکستان پر بھروسا نہیں، سب سے پہلے اس بیان کے حوالے سے بتائیں؟
سیف علی خان: ‘سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پر بھروسہ ہونے یا نہ ہونے کی بات کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ میرا بیان سنسر بورڈ کے لیے تھا اور یہ اس وقت دیا گیا جب مجھے اس بات کا علم ہوا کہ میری فلم کو دیکھے بغیر ہی سنسر بورڈ نے اس پر پابندی لگادی ہے، میرے بیان کو اسی روشنی میں دیکھا جائے’۔
‘میں نے پاکستان کے ساتھ ہمارے مضبوط رشتے کے حوالے سے بھی متعدد بیانات دئیے۔ میرا پاکستان کے عوام اور فنکاروں کا دل دکھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا جن کی کامیابی کی دعا میں ہمیشہ کرتا ہوں’۔
‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا میں کبھی پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام کرتا’۔
‘نہ ہی میرا سنسر بورڈ کی بے عزتی کرنے کا ارادہ تھا۔ میں نے بار بار اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ سنسر بورڈ پر مختلف قوانین اور مسائل کا دباؤ ہوگا تاہم میرے اس بیان پر کسی نے غور نہیں کیا۔ میں نے فخر عالم کے ساتھ بھی مختلف شوز میں کام کیا ہے اور میں ان کے لیے دعاگو رہتا ہوں’۔
‘میں نے سوچا تھا کہ لوگ اس فلم کو دیکھیں گے اور تبصرہ کریں گے، پابندی لگنے سے مجھے مایوسی تو ہوئی مگر حیران نہیں ہوا۔ ’ایجنٹ ونود‘ پر بھی پاکستان میں پابندی لگائی گئی حالانکہ وہ سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ فلم نہیں تھی، وہ ایک مزاحیہ فلم بنانے کی کوشش تھی۔ ساتھ ساتھ جب بھی ہم اپنی فلموں میں پاکستان کے فوجیوں یا آئی ایس آئی ایجنٹوں کو پیش کیا گیا ہمیشہ ان کے مضبوط کردار کی عکاسی کی گئی’۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنے بیان کی اچھی طرح وضاحت کردی اور امید ہے کہ لوگ اس کو سمجھ سکیں گے۔
ڈان: تو آپ نے اپنی فلم ’فینٹم‘ کے حوالے سے کیا سوچا تھا اور پاکستان میں اس کا کیسا استقبال کیا جاتا؟
سیف: فلم ’فینٹم‘ ایک مشن پر بنائی گئی ہے، ایک ایسے آدمی کی کہانی جو آگے سے آگے بڑھتا جاتا ہے اور ہر طوفان کا سامنا کرتا ہے مگر کوئی بھی اسے کریڈٹ نہیں دینا جبکہ اسے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ کبھی واپس آ بھی سکے گا یا نہیں۔ میرے لیے فلم کا اہم حصہ یہی تھا۔ یہ 26/11 کے ماسٹر مائنڈ کو دنیا بھر میں پکڑنے کے حوالے سے ہے۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ اس فلم پر پاکستان میں پابندی لگا دی گئی ہے تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ ’ایجنٹ ونود‘، ’ایک تھا ٹائگر‘ اور ہندوستان پاکستان کے درمیان تعلق پر بنائی جانے والی فلمیں ہمیں جتنی بھی صحیح لگیں ان پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور میں اس بات کو سمجھتا ہوں۔
البتہ مجھے اس بات پر کافی حیرانی ہوئی کہ ایک عدالت نے اس فلم پر بنا دیکھے پابندی عائد کردی۔
سیف: میرے خیال سے سوشل میڈیا ہر جگہ ایک طرح کا ہی ہے، عام طور پر بہت مفید مگر یہ ہم کو کسی مشتعل ہجوم کی طرح بھی اکھٹا کرسکتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آزادی خیال اور رائے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان میں اداکارہ نیہا ڈوپیا کو حکومت کے خلاف ایک بیان پر عوام نے متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا اور مجھے یہ سب دیکھ کر افسوس ہوا کہ ایک لبرل آواز کے خلاف اتنی تنقید کی گئی۔ میں چاہتا ہوں لوگ انہیں اکیلا چھوڑ دیں۔ ہمارے پاس کمال راشد خان جیسے بیوقوف لوگ سوشل میڈٰیا پر موجود ہیں جس کی وجہ سے میں یہاں موجود نہیں ہوسکتا، خیر یہ ایک مذاق تھا۔
اور اگر میں نے کسی بھی طریقے سے دل آزاری کی ہو تو میں تمام پاکستانی فنکاروں سے معافی مانگتا ہوں ، میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا ہے ہم پیشہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک تعلق سے جڑے ہیں جو سیاست اور سرحدوں سے بالاتر ہے۔ میں ایسے کسی بھی شخص سے نفرت کروں گا جو یہ سوچے کہ جو کردار میں فلموں میں ادا کرتا ہوں وہ میری حقیقی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ میں ’فینٹم‘ کیلئے بھی وہی محسوس کرتا ہوں جو ’اومکارا‘ کیلئے کرتا تھا اور دونوں کے نظریے میں دور دور تک کوئی مماثلت نہیں۔
ڈان: دائیں بازو کی حکومت کو دیکھتے ہوئے کیا ایک انڈین مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے دبائو کا سامنا ہوا؟
سیف: کبھی نہیں! میرے والدین کا شمار قومی شخصیات میں کیا جاتا تھا اور مجھے سیکولر نقطہ نظر کے ساتھ بڑا کیا گیا۔ میں ہندوستان میں بہت خوش اور محفوظ ہوں۔ مجھے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، اگر مجھے ایسا کرنا پڑتا تو میں بکھر جاتا اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں انہیں بتاوں گا کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے قومی ترانہ لکھا جو میری والدہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈان: طبی امدادی ادارے میڈیسن سان فرنٹیئرز نے ‘فینٹم’ میں اپنے گروپ کے ورکرز کی عکاسی درست طریقے سے نہ کرنے پر پروڈیوسرز کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
سیف: میڈیسن سان فرنٹیئرز ایک غیر مسئلہ تھا جس کے لیے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ہم ایک جارحانہ گروپ کی طرح لگنے لگے ہیں جو نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اور یہ سب اب حل ہوچکا ہے۔ ہم نے کافی کوشش کی کہ اس فلم میں دہشت گردوں کے علاوہ کسی کی دل شکنی نہ کی جائے۔ شکر خدا کا کہ ڈیوڈ ہیڈلی نے ہمارے خلاف کارروائی نہیں کی۔
ڈان: کیا کوئی اور بھی چیز ہے جس کے بارے میں آپ بات کرنا چاہتے ہیں؟
سیف: آخر میں میں کہا چاہتا ہوں کہ مجھے پاکستان میں موجود اپنے خاندان اور پاکستان کی متعدد چیزوں سے بے انتہا محبت ہے۔ میں بہت زیادہ سیاسی یا تنقید کرنے والا آدمی نہیں۔ میں ایک اداکار اور فنکار ہوں۔ میں اب بھی اس بات کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر میں اس مسئلے میں کیوں پھنس گیا تھا۔ پاکستان ہندوستان سے متعلقہ موضوعات پر کام کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ مکمل بوریت اور تھکاوٹ۔ میں خود اب ’ریس‘ جیسی فلمیں بناوں گا جو ریکارڈ توڑیں بجائے کسی کا دل۔