کراچی : پاکستانی ڈرامہ تاریخ کے یادگار سیریل ہمسفر پہلے دو ٹیلیویڑن چینیلز نے مسترد کردیا تھا اور پھر ٹی وی پروڈیوسر و رائٹر مومنہ دورید نے اسکرپٹ پڑھ کر اس کی کہانی کو محسوس کیا اور انہیں لگا کہ عوام بھی اس کو پسند کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔یہ بات معروف ٹی وی پروڈیوسر مومنہ دورید نے ڈان میڈیا گروپ کے انڈس ویلی اسکول میں ہونے والے ڈان ٹاک سیریز کے پہلے پروگرام کے دوران بتائی۔مومنہ کو ناظرین سے متعارف کراتے ہوئے صحاف
ی مدیحہ سید نے معروف پروڈیوسر سے پہلا سوال بینکنگ کے شعبے سے ٹیلیویڑن پروڈکشن کے سفر کے حوالے سے کیا۔مومنہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی شوبز میں آنے کا نہیں سوچا تھا ، اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کی شادی ایک میڈیا فیملی میں ہوئی، ان کی ساس سلطانہ صدیقی پی ٹی وی میں ایک پروڈیوسر کے طور پر کام کرتی رہی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مومنہ نے پروڈکشنز میں سلطانہ صدیقی کی مدد کرتے ہوئے مالیاتی امور کو دیکھنا شروع کیا، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ ٹی وی پروڈکشن کے تخلیقی شعبے کا بھی رخ کریں گی۔مومنہ نے بتایا کہ تبدیلی کا عمل ایک پراجیکٹ قسمت کے ستارے کے دوران شروع ہوا جب ان کی ملاقات رائٹر نورالہدیٰ شاہ سے ہوئی، وہ نہیں جانتی تھیں کہ نور الہدیٰ شاہ ایک بڑا نام ہیں اور وہ اسکرپٹ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنے لگیں۔انہوں نے بتایا ” میری ساس نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر نور آپا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ رہی تھی”۔مومنہ نے تسلیم کیا کہ یہ نورالہدیٰ شاہ ہی تھیں جن سے انہوں نے اسکرپٹ رائٹنگ کا فن سیکھا تاہم انہوں نے مزید کہا ” میری ساس میری استاد ہیں”۔مزید تفصیلات بتاتے ہوئے مومنہ دورید نے کہا کہا ان کے شوہر ایک چینیل کھولنا چاہتے تھے اور میری ساس نے بھی اس کوشش میں ان کی بہت مدد کی اور اس چینیل میں آگئیں، اس وقت یہ سوال سامنے آیا کہ کون پروڈکشنز کو بنائے تو میں نے اس کا بیڑہ اٹھایا اور اس طرح وہ ڈراما پروڈکشنز کے عمل کا حصہ بن گئیں۔انہوں نے جس پہلے ڈرامہ پراجیکٹ پر خودمختار پروڈیوسر کے طور پر کام کیا وہ ‘ میرے پاس پاس’ تھا جسے سمیرا فضل نے تحریر کیا تھا۔یہ ڈراما ہٹ رہا تاہم جس پراجیکٹ نے انہیں عروج پر پہنچایا وہ برصغیر کی تقسیم پر مبنی ‘ داستان’ تھا، جس کے سلسلے میں ان کی ملاقات مرحوم رائٹر رضیہ بٹ سے ہوئی اور ان کی منظوری حاصل کرنے کے بعد مومنہ نے پورے دل سے اس ڈرامہ کو تیار کیا۔مومنہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہیں حقوق نسواں کا حامی سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے کامیاب سفر کے حوالے سے شوہر کی حمایت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ڈراموں میں سہارا دینے والی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی پیش کرتی ہیں۔
اپنی ساس کے اثر سے باہر نکلنے کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک خوش قسمت خاتون ہیں کہ ان کی ساس ان کی دوست کی طرح ہیں۔اس کے بعد مومنہ کے ڈرامہ ‘ رہائی’ پر بات ہوئی جس میں کم عمری کی شادیوں کے حساس موضوع کو اجاگر کیا گیا تھا۔مومنہ نے میزبان کو بتایا کہ کس طرح انہوں نے اس پراجیکٹ کو مھسوس کیا اور اس کے نشر ہونے پر ہونے انہیں کس طرح کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ہمسفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شروع میں وہ رائٹر فرحت اشتیاق سے کسی اور کہای پر بات کررہی تھیں مگر پھر قسمت سے فرحت اشتیاق نے ہمسفر کی کہانی سنائی جو مومنہ کو پسند آگئی۔فرحت اشتیاق نے مومنہ کو بتایا کہ اس کہانی کو دو چینیلز پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں تو اس پر کام کرنا اچھا خیال نہیں۔اس موقع پر مومنہ کو لگا جب وہ کہانی کے جذبات کو محسوس کرسکتی ہیں تو عوام بھی اس کا اثر قبو لکریں گے اور انہوں نے اس ڈرامے کو بنانے کا فیصلہ کرلیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہمسفر کے ڈائریکٹر، اداکار اور دیگر نے پہلے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کیا تھا۔