اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف ميرتقّى مير کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے۔
سترہ سو تئیس میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔
میرتقی میر نے دہلی ميں اِک جہاں کو اپنا گرويدہ کيا اور سترہ سو اڑتاليس ميں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصيدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا ديا۔
میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔
مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔
اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہوگیا۔