انیس سو ستانوے میں ایشیا کے اقتصادی بحران کے بعد کساد بازاری کی وجہ سے ایک ایسی ہی لہر آئی تھی اور جاپان کےگارمنٹس اسٹور یونیکلو نے چین میں تیار ہونے والے سستے کپڑوں کی فروخت شروع کردی تھی۔ یونیکلو نے 1998ء میں ٹوکیو کے اندر اپنا پہلااسٹور کھولا تھا، اب تقریباً 800 اسٹورز کی چین پورے جاپان میں پھیلی ہوئی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
ٹوکیو، جاپان: مکاٹو میازاکی ٹوکیو کے مضافاتی علاقے ٹائے ٹو میں ایک اسٹور پر آفس فرنیچر فروخت کرتے ہیں، اور اس فرنیچر کے بارے میں حلفیہ کہتے ہیں کہ یہ ”میڈ اِن جاپان“ یعنی جاپان میں تیار کردہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ”یہ چین میں تیار کیے ہوئے فرنیچر سے بہتر ہیں، اس لیے کہ یہ مضبوط اور پائیدار ہیں۔“
لیکن اپنے فرنیچر کی تعریف کرنے کے باوجود یہ بات بھی حقیقت ہے کہ گاہک جاپان میں تیار کردہ الماری کی تیس سے پچاس فیصد زیادہ قیمت کیوں دینا چاہیں گے۔
چالیس برس کے مکاٹو میازاکی یہ جان کر خوش نہیں ہوں گے کہ وہ تنہا اس مسئلے کا سامنا نہیں کررہے ہیں۔ ایک سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایسے جاپانی صارفین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، جن کی توجہ اپنے ملک میں تیار کیے گئے سامان کے بجائے بیرون ملک سے درآمد ہونے والے سامان پر مرکوز ہوچکی ہے۔
ٹوکیو کے ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور ماٹسویا کے ایگزیکٹیو مینیجنگ ڈائریکٹر نوبویوکی اوٹا، اس معاملے کو مختلف طرز میں لیتے ہیں۔
ان کے کہنے کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ سیلزکے عملے کے لوگ خریداروں کے سامنے جاپان میں تیار کردہ اشیاء کی امتیازی خصوصیات کی مناسب وضاحت نہیں کر پارہے ہیں۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ”سیلز اسٹاف عام طور پر ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں موجود اشیاء کی زیادہ قیمتوں کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویّہ اختیار کرتا ہے، جبکہ انہیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہئیے کہ یہ اشیاء دوسروں کی بہ نسبت کیوں بہتر ہیں۔ؕ“
لیکن اس رجحان کو پنپنے میں کئی سال کا عرصہ لگا ہے۔ جاپان کی وزارت تجارت، صنعت اور اقتصادی امور نے 2010ء میں خبردار کیا تھا کہ مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء اپنی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے انحطاط سے دوچار ہیں۔
مذکورہ وزارت نے ایک رپورٹ میں بیان کیا کہ ایسے صارفین جو پہلے صرف جاپان میں تیار کردہ آلات اور مصنوعات خریدا کرتے تھے، اب ان کی تعداد اس قدر نہیں رہی۔ یہاں تک کہ غذائی اشیاء کے خریدار بھی جاپان میں پیدا ہونے والی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ناخوش ہیں اور دیگر ملکوں سے برآمد ہونے والی اشیاء کی جانب متوجہ ہورہے ہیں۔
جاپان میٹ انفارمیشن سروس سینٹر کی جانب سے گزشتہ سال کے اواخر میں کیے گئے ایک سروے سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ چالیس فیصد سے زیادہ لوگوں کے مطابق چکن اور بڑے جانور کے گوشت کی خریداری میں اس کی کم قیمت اہمیت رکھتی ہے، جبکہ بیس فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ جاپانی مویشیوں کے گوشت اور چکن کو ترجیح دیتے ہیں۔
سروے کے مطابق مارچ 2011ء کے زلزلے اور سونامی سے فیوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ پر نہ ختم ہونے والے مسائل سے پیدا ہونے والی تشویش نے درآمد شدہ غیرملکی غذائی اشیاء کے لیے قبولیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
لیکن چین میں تیار ہونے والی فروزن ڈمپلنگ (گوشت اور میدے سے بھاپ میں تیار کیا جانے والا ایک اسنیکس) کے استعمال سے 2007ء اور 2008ء میں بہت سے جاپانی بیمار ہوگئے تھے، یہی وجہ ہے کہ جاپانی صارفین چین کی غذائی اشیاء سے محتاط رہتے ہیں، اور اسی لیے جاپان میں امریکا اور برازیل کے گوشت نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہے۔
انتظامی مشاورت کے ایک ادارے نے یہ نشاندہی کی ہے کہ ترجیحات میں تبدیلی کا رجحان 2008ء کے معاشی بحران کے دوران پیدا ہوا تھا، جب جاپان کساد بازاری سے دوچار تھا، اور صارفین نے اپنے اخراجات میں کٹوتی شروع کردی تھی۔
تیس برس کی گھریلو خاتون یوریکو کوہارا کا خیال ہے کہ یہ رجحان پہلے بھی پیدا ہوا تھا اور جلد ہی تبدیل ہوجائے گا، جب 1997ء میں ایشیا کے اقتصادی بحران کے بعد کساد بازاری کی وجہ سے ایک ایسی ہی لہر آئی تھی اور جاپان کےگارمنٹس اسٹور یونیکلو نے چین میں تیار ہونے والے سستے کپڑوں کی فروخت شروع کردی تھی۔
یونیکلو نے 1998ء میں ٹوکیو کے اندر اپنا پہلااسٹور کھولا تھا، اب تقریباً 800 اسٹورز کی چین پورے جاپان میں پھیلی ہوئی ہے۔
بہت سے جاپانی مینوفیکچررز نے بھی بیرون ملک اپنی فیکٹریاں لگالی ہیں۔ لیکن کوکوسان کی مصنوعات کو ایک بڑا خطرہ جاپان کے غیرملکی برانڈز سے لاحق ہے۔
گھریلو مصنوعات کی مارکیٹ میں پیش رفت کے حوالے سے مئی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں جاپان کی وزارت تجارت، صنعت و اقتصادیات نے حوالہ دیا ہے کہ چین کے برانڈ ہائیر اور جنوبی کوریا کے ایل جی کی وجہ سے جاپان میں تیار ہونے والی مصنوعات کے لیے مارکیٹ میں جگہ تنگ پڑتی جارہی ہے، جن کے ڈیزائن بھی اچھے ہیں اور مقابلتاً قیمتیں بھی مناسب۔
چاؤ یونیورسٹی میں صارفین کے رجحان کے تجزیہ کار کوجی ماٹسوشیٹا یقین رکھتے ہیں کہ اس رجحان میں انٹرنیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہرماہ ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں لوگ ایک ویب سائٹ کاکاکو ڈاٹ کام کا وزٹ کرتے ہیں، جہاں وہ آن لائن خریداری یا اسٹور جانے سے پہلے کمپیوٹر، کپڑے، کاروں اور غذائی اشیاء سے لے کر ہر قسم کی مصنوعات کی درجہ بندی اور ان کی قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
درجہ بندی کی یہ فہرست قیمتوں کو پہلی ترجیح دینے والے اس رجحان کو مزید تقویت دیتی ہے۔
مثال کے طور پر مذکورہ ویب سائٹ کی مرتب کردہ لیپ ٹاپ کی فروخت کی فہرست کے اندر چین میں تیار کردہ لینووو برانڈ کا لیپ ٹاپ سرفہرست ہے، اس لیے کہ اس کی قیمت 38 ہزار ین (یعنی 380 امریکی ڈالرز) سے بھی کم ہے، اور یہ دیگر کمپنیوں کے لیپ ٹاپ میں سب سے سستا ہے۔
یہاں تک کہ مکاٹو میازاکی سے جب پوچھا گیا کہ وہ جاپان میں تیار کردہ اشیاء کی حمایت کرتے ہیں، کیا انہوں نے اپنی تمام چیزوں کی خریداری بھی اسی سوچ کے تحت کی ہے؟ تو انہوں نے بے ساختہ تسلیم کیا کہ کوکوسان کی مصنوعات نسبتاً مہنگی ہیں۔