مصر میں انقلاب کے بعد سے عدم استحکام کی صورت حال برقرار ہے
مصر کےوزیراعظم نے اپنی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میکسیکو کے سیاحوں کی ہلاکت کی پر معذرت کی ہے۔
مصر کی سکیورٹی فوسرز کے مطابق ہلاک ہونے والے سیاحوں میں میکسیکو کے آٹھ شہری شامل ہیں تاہم ابھی تک میکسیکو کی حکومت کی جانب سے دو شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
واضع رہے کہ مصر کی سکیورٹی فورسز نے انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی میں غلطی سے 12 سیاحوں کو شدت پسند سمجھ کر ہلاک کر دیا تھا۔
مصر کی وزارت دفاع کے ایک بیان مطابق یہ سیاح چار بسوں میں سوار تھے اور ملک کے مغربی ریگستانی علاقے واحات میں داخل ہو گئے تھے۔
مصری حکام کے مطابق اس علاقے میں داخل ہونے پر پابندی عائد تھی تاہم محکمہ سیاحت کے حکام اس کی تردید کر رہے ہیں۔
وزارت دفاع کے مطابق اس حادثے میں کم از کم 10 ديگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنھیں مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ زخمی ہونے والوں میں مصری اور میکسیکو دونوں ممالک کے شہری ہیں۔
الیوم اسبی نامی ویب سایٹ کے مطابق مصر کے وزیراعظم ابراہیم ملحب نے قاہرہ میں موجود میکسیو کے سفیر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور معافی مانگی۔
ویب سائٹ نے مصری وزیراعظم کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’میں نے میکسیکو کے سفیر کو دوبارہ یقین دہانی کروائی ہے کہ زخمیوں کو مناسب طبی امداد فراہم کی جارہی ہے اور حکومت غیر ملکیوں کی ہلاکت پر معافی چاہتی ہے۔‘
میکسیکو میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق سیاحوں کی ہلاکت کی خبر اخبارات اور ٹیلی ویژن پر سب سے بڑی خبر دکھائی دے رہی ہے۔
وزیرِ خارجہ نے پیر کی صبح پریس کانفرنس تو کی تاہم وہ بہت مختصر تھی اور اس میں صحافیوں کو سوالات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
مصر میں ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ہلاک ہونے والوں میں میکسیکو کے آٹھ شہری شامل تھے۔
زخمیوں کا کہنا ہے کہ ان پر ہیلی کاپٹروں اور ایئر کرافٹ کے ذریعے بم برسائے گئے۔
سینائی کے علاقے میں مصری سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہتے ہیں
ادھر مصر کی ٹریول گائیڈ یونین کے سربراہ حسن النہلا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سیاحوں کے گروپ کے ہمراہ پولیس کی جانب سے ایک محافظ بھی موجود تھا اور ان کے ہمراہ وہ حملے سے قبل بہت سی چیک پوسٹوں سے گذرے تھے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم قائم کر دی گئی ہے۔
وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اتوار کے روز جو لوگ مارے گئے ہیں انھیں علاقے میں ’دہشت گرد عناصر سے نمٹنے کے ایک آپریشن کے تحت مارا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ فوج کی یہ مہم عراق اور شام کے بہت سے علاقوں میں قابض شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے آنے والے ایک بیان کے بعد کی گئی ہے جس میں اس گروہ نے لیبیا کی سرحد سے متصل مصر کے اس علاقے میں اپنی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ علاقہ سیاحوں کی دلچسپیوں کا مرکز رہا ہے لیکن اس کے ساتھ اسے شدت پسندوں کے چھپنے کی جگہ بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔