لندن، ابوجا: نائیجیریا کی سابق وزیر پٹرولیم ڈیزانی الیسن میڈیوک کو جمعہ کے روز لندن میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈیزانی الیسن میڈیوک کا شمار سابق صدر گڈ لگ جوناتھن کی حکومت کے انتہائی بااثر افراد میں ہوتا تھا اور انہیں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے جمعہ کے صبح دیگر چار افراد سمیت گرفتار کیا ہے جن کے شناخت کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہو سکا۔ نائیجیرین اخبار لیڈر شپ کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم کو رشوت ستانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جن کی تفتیش برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کر رہی ہے۔ لندن میں دو اعلیٰ برطانوی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق وزیر کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ نائیجیریا میں برطانوی ہائی کمیشن نے بھی جمعہ کو ہونے والی کچھ گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے تاہم ان لوگوں کی شناخت ظاہر کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ ہائی کمیشن کے پریس اینڈ پبلک افیئرز آفیسر جوزف ابوکو نے بتایا کہ 21 سے 60 برس کی عمر کے درمیان والے پانچ افراد کو رشوت ستانی اور بدعنوانی میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے اور نیشنل کرائم ایجنسی ان الزامات کی تفتیش کر رہی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ کیا سابق وزیر کو نائیجیریا کی حکومت کی درخواست پر گرفتار کیا گیا ہے البتہ صدر محمدو بوہاری نے 27 ستمبر کو اشارہ دیا تھا کہ قومی آئل کمپنی میں کروڑوں کی خورد برد کرنے والوں پر جلد مقدمہ چلایا جائے گا۔ واضح رہے کہ دھوکا دہی کے حوالے سے نائیجیریا دنیا بھر میں معروف ہے اور اکثر ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نائیجیریا میں منظم گروہوں کی طرف سے فراڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت لوگوں کو ای میلز موصول ہوتی ہیں جن میں ایک میل بھیجنے والے یا بھیجنے والی کی طرف سے اس قسم کی کہانی بیان کی جاتی ہے کہ انہیں ورثے میں بڑی جائیداد اور دولت ملی ہے مگر اس کے حصول میں کچھ قانونی رکاوٹیں درپیش ہیں، اس ای میل میں مالی مدد کی درخواست کی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں ورثے میں ملنے والے خطیر رقم کا ایک بڑا حصہ دینے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے۔ سادہ لوح لوگ پیشہ ور دھوکا بازوں کے چنگل میں پھنس کر اپنی رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں اور فراڈ کی یہ داستانیں منظر عام پر آنے کے باوجود ان گروہوں کی طرف سے دھوکا بازی کے نت نئے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اور لوگ ان کا بڑے پیمانے پر شکار بنتے ہیں۔ کہا یہی جاتا ہے کہ ان دھوکا باز گروہوں کو حکومت میں شامل بااثر افراد کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ کاروبار جاری و ساری ہے۔