منافق سچی بات بھی زبان پر لاتا ہے تو وہ سچا نہیں ہوجاتا ہے ۔ اپنی منافقت کے سبب جھوٹا ہی رہتا ہے ۔
بارک حسین اوباما گزشتہ دنوں ملیشیا کے دورے پر تھے ۔ نصف صدی میں کسی امریکی صدر کا یہ پہلا دورہ ملیشیا تھا ۔ لیکن ۔ وہ انڈونیشیا جانے کا وقت ابھی تک نہیں نکال سکے جہاں اپنے بچپن میں کچھ سال انہوں نے ایک اسلامی مدرسے میں قرآن سیکھتے ہوئے گزارے تھے ۔
ملیشیا میں انہوں نے کوالا طمپور کی جامع مسجد کے امام اور مفتی اعظم اسمیعل محمد سے ۲۵ منٹ گفتگو کی جس کی تفصیلات آخر الذکر ہی کے حوالے سے ۳۰؍اپریل ۲۰۱۴ ء اخبارات میں شائع ہوئیں بقول مفتی اعظم ، ان کے فرمودات کے جواب میں صدر اوباما باربار انشاء اللہ انشاء اللہ کہتے رہے ۔ انہوں مفتی صاحب سے یہ دعا کرنے کی درخواست کی اللہ انہیں مسلمانوں پر مظالم بند کرانے کی توفیق دے ۔
گزشتہ ہفتے مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی میں دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی کانفرنس ہوئی جس میں ہندوستان کی نمائندگی مولانا مطیع الرحمان مدنی کی اور فرمایا کہ سعودی عرب عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کا خواہاں اور اس کے یہ ممکنہ طور پر کوشاں ہے۔ خیر اس بارے میں خاموش ہے کہ اس عالمی کانفرنس میں مصر، ایران، پاکستان عراق اور سیر یا کی نمائندگی تھی یا نہیں ۔
سعودی عرب نے مصر کی الا خوان المسلموناسلامی انقلابی تحریکی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اور فرعون ِ مصر جنرل عبدالفتاح السیسی کو مصر کے اخوان سربراہ ِ حکومت صدر محمد مرسی کی جائز قانونی اور جمہوری حکومت پر شب خون مارنے میں کامیابی اسی یے مل سکی کہ سعفی پارٹی النور نے اخوان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ۔ سلفیوں نے اخوان کے خلاف جو فرد جرم تیار کی ہے اس میں سہر فہرست یہ ہیں کہ صدر مرسی کا جھکائو سعودی عرب سے زیادہ ایران کی طرف تھا اور اخوانی حکومت نے مصری شیعوں کو اپنے مدارس قائم کرنے کی اجازت بحال کردی تھی سیلفیوں کی تنظیم القاعدہ تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جھنگوی اور سپاہِ صحابہ وغیرہ ایسی تنظیمیں ہیں جو شیعوں کی علانیہ کافر اور واجب القتل قرار دیتی ہیں۔
القاعدہ اور طالبان جب روسی کیلونسٹوں سے جنگ کررہے تھے تو وہ جہاد تھا لیکن جیسے ہی دن کا رخ صہیونی سامراج کی طرف ہوا وہ دہشت گردی قرار پاگئی اور وارآن ٹیر ر چھڑ دی گئی ۔ امریکہ سے لڑنے والے القاعدہ کے سعودی سربراہ اسامہ بن لادن سعودی عرب کے نزدیک بھی دہشت گرد تھے لیکن بشارالدسلہ کے خلاف سیر یا میں القاعدہ کے لڑائی جہاد ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شام میں بشاالدسلہ کے خلاف ’’جہاد ‘‘کرنے والی ایک اور تنظیم جیش الحر اور القاعدہ شیعوں کے ساتھ ساتھ باہم ایک دوسرے کو بھی کافر اور واجب القتل کہتے اور سمجھتے ہیں ، لیکن ذرا ٹھہریے ۔ ابھی تو اس معاملے میں اور بھی پینچ ہیں !
مثلاً سعودی عرب کے سخت گیر سمجھے جانے والے ایک سلفی مبلغ الشیخ عدنان العر عور اور قطر کے تحریکی انقلابی اور اخوان حامی عالم دین دین شیخ یوسف القرضاوی شامی جنگ کو جہاد اور اس میں شرکت کو فرض عین قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ مائکر و وبلاگنگ ویب سایٹ ٹیوٹر پر ایسے متعدد سعودی علماء کے فتوے موجود ہیں جو شام کے محاض جنگ میں شرکت کو حرام بتاتے ہیں ۔ یکم مئی ۲۰۱۴ء کے اخبارات میں ریاض کی ڈیٹ لائن سے شامی محاض جنگ سے واپس آنے والے ایک سعودی نوجوان مسفر محمد کی داستان شائع ہوئی ہے ۔ ایم بی سی ٹی وی کے پروگرام الشامنہ کے میزبان دائود اشریان کو مسفر محمد نے بتایا کہ شام جانے والے سیکڑوں سعودی نوجوان اب پچھتا رہے ہیں لیکن گرفتار ی کا خوف وطن واپسی میں مانع ہے ۔ مسفر نے بتا یا کہ شام جانے پر اسے معلوم ہوا کہ یہ تو ایسا جہاد ہے جس میں مسلمان ہی دوسرے مسلمان کاگلا کاٹ رہے ہیں ہم جنکو جہاد سمجھتے ہیں وہ کھلے عام شراب پیتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے لائی گئی خواتین سے دل بہلاتے ہیں ۔ جیش الحر ، القاعدہ اور النصر ہ جیسے جہادی کو اس الزام میں گرفتاری کرکے جیل میں بند کررکھا ہے ۔ وہ سب کے سب بے گناہ ہیں ۔ بعد میں سوامی اسیمانند نے کارواں نام کی ایک انگریزی میگزین کو دیے گئے اپنے تفصیلی انٹریو میں بھی جو مختلف اوقات پر مختلف نشستوں میں جیل ہی میں لئے گئے تھے ، پھر اپنے اور آر ایس ایس وغیرہ کے جرائم اور دہشت گردی کا اعتراف کیا ۔ یہ طویل انٹریو ابھی چند ماہ قبل ہی شائع ہوا ہے ۔
موہن بھاگوت آج آر ایس ایس کے سربراہ اور اند ریش کمار اس کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ اندریش کمار اردو بہت اچھی جانتے ہیں اور سنگھ کے اس مخصوص شعبے کے ذمہ دار ہیں جس کا کام ہی مسلمانوں میں میر صادقوں میر جعفروں ، اعزازرضویوں ، شاہنواز حسینوں ، مختار عباس نقویوں اور عارف بیگوں وغیرہ کو تلاش کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔ مسلم راشٹریہ منچ، اور انجمن فرزندان ہند نام کی تنظیموں کے سرپرست بھی یہی اندریش کمار صاحب ہیں ۔جو مسلمانوں میں نفاق و افتراق کے مذموم منصوبوں پر عمل درآمد ہی کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی اور آج بھی ہر مسلم دشمن بلکہ اسلام دشمن پارٹیوں میں آپ کا ایسی داڑھیاں ،ٹوپیاں اور عمامے مل جائیں گے گزشتہ دو ماہ کے دوران شائع ایسی متعدد تصاویر اس کا ثبوت ہیں۔
اگر آج ہیمنت کرکرکے زندہ ہوتے اور ان کی سربراہی میں ایس آئی ٹی ممبئی کی تفتیش اسی طرح جاری رہتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔ نریندرمودیوں ، اندریش کمار وں ، گری راج کشور وں اور پروین توگڑیائوں جیسے لوگ جو دیش بھکتی کا دعویٰ کرتے ہیں ، فی الواقع خود ہی ملک کے سب سے بڑے دیش دروہی اور دہشت گرد ہیں ۔
نام نہاد معاشی ترقی کے نام پر وطن عزیز کو صہیونی قارونی ، سامراجی شدّادوں اور فسطائی فرعونوں کا غلام بنانے اور مسلمانوں کے لئے ہندستان کو دوسرا ہسپانیہ ، بوسنیا، انگولا، میا نمار اور غزہ بنادینے کی سازش کرنے اور اس کے لئے خفیہ تیاریاں کرنے ان تمام لوگوں کی جگہ جیلوں میں تاعمر قید تنہائی یا پھانسی کے پھندے ہیں۔
لیکن ہم مایوس نہیں ہیں ۔ آنے والے ماہ وسال ، بے شک خطرناک ہیں لیکن اس (امتحان کے بعد جو ہمارے ہی توتوںس کی وجہ سے ناگزیر ہوچکا ہے ۔ عدل وانصاف پر قائم ، حقیقی امن کا قیام صرف وطن عزیز ہی میں نہیں پوری دنیا کا مقدر ہے ۔ ہم تو وہ دن دیکھنے کے لئے کل نہیں رہیں گے ۔لیکن ہمارے بعد والی نسل جو اس موجِ خوں سے سرخرو گزرے گی ضرور اس عہد امن و انصاف کی گواہ بنے گی ۔ انشاء اللہ بس ہم انتا یادرکھیں کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسروں کی کرنی کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ا ور قبر میں اور حشر میں ہم سے بس ہمارے اعمال کی باز پرس ہوگی ۔