صفحات: ۱۶
۲
پبلیشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی
تبصرہ نگار: رضا مشہود، جھیلم ہاسٹل جواھر لعل نہرو یونیورسٹی
عورت سماج کاآئینہ ہے عورت کے توسط سے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے اور عورت تین مراحل سے گزرتی ہے بیٹی زوجہ ماں اور ان مرحلہ میں سماج پرست افراد کی بیجا تنقید اور غیر منصفانہ سر پنچوں کے حالات کا سامنا بھی ہے اکثر سرپنچون کے فیصلہ عورت کے حق میں نزاع کا باعث بنے ہیں عورت کے مسائل فقط ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی پیمانہ پر رونما ہوئے عورت کی چیخ و پکار نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کیاکہ مسائل نسوان کے لئے اپنی آواز کو بلند کریں۔لہٰذا دنیائے ادب نے اپنے ادبی شہپارون میں عورت کی داستان چہیڑی ۔جب کبھی سماج یا معاشرہ نے حقوق کی پائمالی وناانصافی کی یاغلط راستہ کا شکار ہوا تو ادباء و شعراء نے اپنے قلم کے ذریعہ سے افسانوں ،ناولوں ،ڈراموں اور نظموں میں بہت ہی نپے تلے انداز میں نصیحت آمیز اور منصفانہ گفتگو کی ہے ہندوستان میں سر سید کی علی گڈھ تحریک نے مغربی تعلیم سے روشناش کرایا اور اس تحریک نے تعلیم کے حوالے سے کافی بیداری عطا کی حالانکہ سر سید کی بڑی شدت سے مخالفت ہوئی سر سید کی تحریک کے بعد ھندوستان میں ایک بڑی تحریک ابھر کر سامنے آئی جسے ترقی پسند تحریک سے جانا جا تا ہے ترقی پسند تحریک نے جن مسائل سے بحث کی ہے ان مسائل میں ایک مسئلہ عورت کا بھی ہے ھندوستان میں عورت کے جو مسائل تھے مصنفین نے ادب کاایک اہم موضوع قرار دیا ۔زیر نظر کتاب ،،ترقی پسند اردو افسانہ میں عورت کی عکاسی ،، صاحب کتاب جناب اشرف لون ( دانشجوی ہندوستانی زبانوں کے مر کز جواھر لعل یونیورسٹی ) کی تخلیق ہے ان کاتعلق کشمیر کی وادی سے ہے جسے دورہء قدیم میں ایران صغیر کے نام سے جاناتھا جہاںا ردو زبان کو ایک سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے مذکورہ بالا کتاب موصوف کی تنقید و تحقیق کا ثمرہ ہے یہ کتاب ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ باب پر تقسیم کی گئی ہے اور اس تقسیم میں ذیلی ابواب بھی شامل ہیں ۔باب اول جدید ہندوستانی سماج میں عورت اس کو تین ذیلی عنوانات میں مقرر کر کے ھندوستان میں عورت کی تاریخ پر نظر ڈالی ہے اور قدیم ھندوستان میں عورت کے مقام و مرتبہ کا اجمال پیش کیا ہے اور ۱۸۵۷ سے لیکر عورت کے بدلتے ہوئے حالات پر مدلل بحث کی ہے ھندوستان میں انگریزوں کی آمد سے عورتوں کے حالات میں کافی سدھار ہواعورتوں کو اپنے حقوق کا احساس ہوا اور اسکے حصول کے لئے کوشاں ہوئیں اصلاح نسواں کے لئے با قاعدہ طور پر عورتیں متحرک ہو ئیںاور اس کے لئے انجمنوں کا قیام عمل میں آیا اور ان انجمنوں کو مردوں کی سرپرستی حاصل تھی ۔تقسیم ھند کے بعد عورتوں کو جن مسائل سے دو چار ہونا پڑا اس کا بھی اس باب میں اشارہ ہے تحریک آزادی میں عورتوں کی شمولیت نے عورتوں مردوں کے برابر حقوق دلانے کی نیز مصنف نے اس باب میں ہندوستان میں موجودہ دور میں طرح طرح کے مسائل عورتوں کے لئے پیدا ہیں اس کا تجزیہ اور عورتوں کے لئے جو ایکٹ بنائے گئے ہیں ان پر اپنا تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے ۔دوسرا باب ماقبل ترقی پسنداردو افسانہ میں عورت اس باب کے ضمنی باب میں ترقی پسند افسانہ سے پہلے ادب لطیف کے افسانے میں عورت کی عکاسی اور نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کااور حقیقت پسند افسانہ میں عورت کے روپ کو تنقیدی جائیزہ لیا ہے باب سوم اردو ادب میں ترقی پسند تحریک اس میں ترقی پسند تحریک کے مصنفین کے رحجانات کا تجزیہ اور ترقی پسند تحریک کے آغاز وآمد کے اسباب کا ذکر ہے مصنف کا ماننا ہے کہ غدر کے بعد اردو ادب میں سر سید ،حا لی اور آزاد وغیرہ کے رحجانات ترقی پسند کی علامت ہیں اور ترقی پسند کا با قاعدہ آغازاس کی مختصرتاریخ اور ترقی پسندوں کے نظریات کی وضاحت کی گئی ہے۔باب چہارم ترقی پسند افسانہ نگاروں نے کھلم کھلا سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف آواز بلند کی سماج میںعورتوں ،مزدوروں،اور دبے کچلے لوگوں پرمظالم کابیان صنف افسانہ میں دیکھنے کو ملتا ہے اس باب میںترقی پسند افسانہ میں عورت کے مختلف روپ اورتحریک کے نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تنقیدی جائیزہ اودیگر ترقی پسند افسانہ نگاروںمیں عورت کی عکاسی مردوں کے بدلتے ہوئے رو پ کو بھی دکھایا گیا ہے باب پنجم اس باب میں افسانہ کے اجزائے ترکیبی اور ان کے فن پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے کردار نگاری افسانہ کا ایک اہم جز ہے جس کا افسانہ کے فن کو متحرک کر نے میں اہم حصہ ہوتاہے اگر کردار بے جان ہونگے تو افسانہ قاری کو متاثر نہیں کر سکے گا اور پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیںہو گی اور انسان کو بوریت محسوس ہوگی اس میں ترقی پسند افسانہ میں عورت کو بحیثیت مرکزی کردار پیش کیاگیا ہے ۔ نما ئندہ افسانہ نگاروں کی کردار نگاری جنکے جاندار کردار افسانہ کی جان میں روح پھونکتے ہیں ۔ ان کے انداز بیان ،اوراس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دیگر افسانہ نگاروں میں،سہیل عظیم آبادی،جیلانی با نو،حیات اللہ انصاری،صالحہ عابد حسین،ترنم ریاض وغیرہ نے عورت کے مقام اور کردار سے بحث کی گئی ہے مصنف نے ہر افسانہ نگار کردار نگاری کے فن پر بحث کی گی لیکن ان افسانہ نگاروں میں کس کے کردار زیادہ جاندار ہیں اس سے گریز کیا ہے ۔ اختتامیہ میں عورت کے مسائل کا مجموعی طور پرافسانہ میں بتد ریج ذکرکیا ہے مصنف کا ماننا ہے کہ اردو ادب میں عورتوں کے حقیقی مسائل کو سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے اپنے ناول میں پیش کیا ۔ ادب لطیف کے توسط سے ہندوستانی افسانہ نگاروں نے عورت کے مسائل ک جگہ دی ہے عورت کو جن مسائل کا سامنا قدیم دورمیں تھا آج بھی وہ مسائل درپیش ہیں خواہ جنسی ہوں ، سیاسی یا دیگر حصہ داری کے معاملات عورت ک وہ تمام مسائل کا سامنا آج بھی ہے مصنف اس بعد کے قائل ہیں کہ عہد حاضر کے افسانہ نگاروں نے بھی عورت کے مسائل کو اپنے افسانہ کا موضوع بنا یاہے لیکن ان کے افسانہ ترقی پسندوں کے ہم پلہ نہیں ہیں اور یہ مصنف کی منصفانہ تنقید ہے ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اس فن کو آراستہ اور شہرت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔مصنف نے ترقی پسند افسانوں میں عورت کے کردار بہت ہی صاف گوئی اور سلیس اور انداز میں بیان کیا ہے اور بیجا تنقید سے بھی گریز کیا ہے امید ہے محصلین اور محققین کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی ۔(یو این این)