لکھنؤ۔بی جے پی کے منصبِ وزیرِ اعظم عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کے ذریعہ کلکتہ کے جلسۂ عام میں دئے گئے اُس بیان جس میں انھوں نے بنگلہ دیشیوں کو مغربی بنگال کے سبھی نوجوانوں کے حقوق کے استحصال کا ذمہ دار بتایا ہے اور پرنب مکھرجی کو ۱۹۸۴ء اور ۲۰۰۲ء میں عہدۂ وزیرِ اعظم سے محروم کرنے کیلئے کانگریس کو ہدفِ تنقید بنایا ہے، پر اپنا شدیدرد عمل ظاہر کرتے ہوئے اتر پردیش کے سابق ایڈوکیٹ جنرل و سابق چئیرمین اقلیتی کمیشن، ایس ایم اے کاظمی نے نریندر مودی کی اس تقریر کو حد درجہ سطحی، پارلیمانی اور آئینی اقدار کی کھُلی خلاف ورزی و فرقہ واریت اور علاقائیت کا بیّن ثبوت بتایا ہے۔ مسٹر کاظمی نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاست کا طفلِ مکتب بھی یہ بات جانتا ہے کہ صدر مملکت کا منصب آئینی منصب کی حتمی اور آخری منزل ہوتا ہے، اس مقام پر بیٹھی شخصیت کو سیاسی تنازعات سے بالاتر رکھنا ہر سیاستداں کا بنیادی فرض ہے۔ مل
ک کے صدر کو اپنے ذاتی سیاسی مفادات کیلئے متنازعہ بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ نریندر مودی جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہیں۔ مسٹر کاظمی نے کہا کہ بنگلہ دیشیوں کے سوال کو جن الفاظ اور لہجہ میں اٹھایا گیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ نریندر مودی مغربی بنگال میں فرقہ واریت کی آگ لگانے پر آمادہ ہیں۔ مسٹر کاظمی نے مشورہ دیا کہ نریندر مودی تقریر کرنے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ کر لیا کریں، تب شاید انھیں یہ یاد آتا کہ بنگلہ دیش کے وجود کے قیام اور بنگلہ دیشیوں کی حمایت کرنے پر نریندر مودی کے مورثِ اعلیٰ اٹل بہاری باجپائی نے اندرا گاندھی کو ’’دُرگا کا اوتار‘‘ لقب سے نوازا تھا۔ اور ۱۹۸۴ء کے جس ماحول میں پرنب مکھرجی کی حق تلفی کرکے راجیو گاندھی کو وزیرِ اعظم بنائے جانے کا وہ آج شکوہ کر رہے ہیں، ٹھیک اسی موقع پر بھگوا کنبہ سڑکوں پر کانگریسیوں کے شانہ بہ شانہ سِکھ مخالف دَنگوں کی قیادت کرتے ہوئے اندرا اور راجیو گاندھی زندہ بادکے نعرے لگا رہا تھا۔
اُس منظرنامہ میں بھگوا کنبہ نے اپنے وجود کو کانگریسی خانہ میں تحلیل کرکے خود کو محض دو سیٹوں پر محدود اور کانگریس کو ۴۱۷ سیٹوں سے نواز دیا تھا۔ مسٹر کاظمی نے کہا کہ نریندر مودی کے موجودہ تیور مستقبل کے جن خطروں کی نشاندہی کر رہے ہیں اُس کا محاسبہ اور اُس پر مثبت لائحہ عمل کا تیار کیا جانا قوم اور ملّت کی فوری ضرورت ہے۔