کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی ہوں، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی یا تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیا للتا، بچے تو دور تینوں نے شادی تک نہیں کی
پانچ بچے پیدا کرنے ہوں گے!
انڈیا میں ٹی وی چینلوں کے انتخابی جائزوں میں اگر آدھی بھی سچائی ہے تو بس یہ مان کر چلیے کہ جب بھی وقت ملتا ہوگا بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی وزیر اعظم کےعہدے کی حلف برداری کے لیے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر پریکٹس کرتے رہتے ہوں گے۔
لیکن سیاست میں کب کیا ہو جائے، کوئی نہیں جانتا۔ نریندر مودی سخت گیر ہندوتوا کے ’پوسٹر بوائے‘ مانے جاتے ہیں اور ہندو قوم پرست تنظیمیں ان کی سب سے بڑی طاقت ہیں لیکن اب ان کی ایک اتحادی تنظیم ہی نے ان کے لیے مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں۔
یہ مودی کے لیے سخت آزمائش کی گھڑی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی، کیونکہ وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل نے کہا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ہندو کو ایک یا دو نہیں پانچ بچے پیدا کرنے چاہییں۔
دو نہیں پانچ بچے
یہ مودی کے لیے سخت آزمائش کی گھڑی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی کیونکہ وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل نے کہا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ہندو کو ایک یا دو نہیں پانچ بچے پیدا کرنے چاہییں۔
لیکن نریندر مودی کو بچے پیدا کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے جوانی میں شادی تو کی تھی لیکن جلد ہی اپنی بیوی سے الگ ہوگئے تھے اور بچے پیدا کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
لیکن ان کے لیے شاید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس وقت وزیراعظم کی کرسی کے جتنے بھی مضبوط دعویدار ہیں وہ انھی کے زمرے میں آتے ہیں۔ چاہے وہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی ہوں، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی یا تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیا للتا، بچے تو دور تینوں نے شادی تک نہیں کی۔
پانچ بچے ہی ہوں، وزیر اعظم بننےکےلیے یہ کوئی قانونی شرط تو نہیں لیکن کہتے ہیں کہ تاریخ انہی سپہ سالاروں کو یاد رکھتی ہے جو خود سینے پر گولی کھاتے ہیں۔
وقت کم ہے اور منزل دور۔
غلطی مورخین کی ہے مودی کی نہیں
ذکر تاریخ اور نریندر مودی کا ہو ہی رہا ہے تو ایک وضاحت بھی کرتے چلیں۔ اسی ڈائری میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ نریندر مودی اپنی تقریروں میں جب تاریخ کا ذکر کرتے ہیں تو ذرا کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ جیسے ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ سکندر اعظم کی فوجیں بہار پہنچ گئی تھیں لیکن بہاریوں کی غیر معمولی شجاعت کےسامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انہیں الٹے پاؤں واپس لوٹنا پڑا تھا۔
ذرا ہٹ کے
گجرات میں بچوں کو تاریخ کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے وہ باقی دنیا سے الگ ہے۔ مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان پر نہیں جاپان نے امریکہ پر جوہری بموں سے حملہ کیا تھا۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سمیت بہت سے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ لیکن اب راز کھل گیا ہے اور غلطی نریندر مودی کی نہیں مورخین کی نکلی۔گجرات میں بچوں کو تاریخ کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے وہ باقی دنیا سے الگ ہے۔ مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان پر نہیں جاپان نے امریکہ پر جوہری بموں سے حملہ کیا تھا۔ اور انڈیا میں ’ہوم رول‘ کی تحریک 1916 میں نہیں، انگریزوں کے جانے کےبعد 1961 میں شروع ہوئی تھی۔
اب بچے تو وہی سیکھیں گے جو آپ انہیں پڑھائیں گے۔ اگر نریندر مودی نے بھی اسی کتاب سے تاریخ پڑھی ہے تو ان کی کیا غلطی ہے؟ اب ان پر کوئی نئی تاریخ رقم کرنے کا الزام نہیں لگا سکتا، گجرات میں یہ کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔
مکیش امبانی کی جیب
عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال کا کہنا ہےکہ ’نریندر مودی، راہول گاندھی اور میڈیا سب انڈیا کے سب سے بڑے صنعت کار مکیش امبانی کی جیب میں (رہتے) ہیں۔‘ معلوم نہیں کہ ان کا مطلب کیا ہے، لیکن اگر یہ بات سچ ہے تو مسٹرکیجریوال کی طرح (جو خود جہاں جگہ ملتی ہے سو جاتے ہیں) ان کی سادگی کو بھی سلام، بے چارے کافی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔