عارف عزیز (بھوپال)
٭ ہندوستان کی قدیم تاریخ میں راجہ بھرت اور جدید تاریخ میں جواہر لال نہرو دو ایسے نام ہیں جنہوں نے اس ملک کو بنانے اور سنوارنے میں اپنی زندگی کا قیمتی حصہ صرف کردیا اسی لئے ہندوستان کی پرانی کہانی بھرت کے نام سے شروع ہوتی ہے تو نئی کہانی کا آغاز جواہر لال نہرو کے نام سے ہوتا ہے آج ہندوستان جیسا بھی ہے جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ نہرو کی قیادت اور ان کی بیٹی اندرا گاندھی کی لیاقت کا نتیجہ ہے یہاں رہنما اور بھی پیدا ہونگے لیکن ان دونوں جیسی تقدیر اور مقبولیت شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔
پنڈت نہرو نے ہندوستان کے نام اس کی عظمت اور اس کے وقار کیلئے زبردست کام کیا اس ملک میں جمہوریت روشن خیالی، رواداری اور باہری دنیا سے قریبی رابطوں کی روایت قائم کی، وہ ہندوستان میں ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہتے تھے جو فرد کے تسلط سے پاک ہو اور بجائے خود اتنا طاقتور بھی ہو کہ غلط آدمی اس کے دائرے میں آئے تو اس کی برائیاں ظاہر ہوجائیں وہ اپنے ملک میں حکمرانی کا ایک ایسا طریقہ قائم کرنا چاہتے تھے جس میں لوگوں کی آزادی آواز اور خواہش کی اہمیت سمجھی جائے، ان کے سامنے متعدد ایسے مواقع آئے جب یہ ملک بگڑتا ہوا یا جمہوریت کی راہ سے روگردانی کرتا ہوا محسوس ہوا تو نہرو نے اپنے وقار کو خطرہ میں ڈال اسے سیدھے راستہ پر چلنے کیلئے مجبور کردیا۔
پنڈت نہرو سے بعض خصوصیات خیال انگیز تبدیلیوںکے ساتھ اندرا گاندھی کے حصہ میں بھی آئیں مثلاً دلیری، صاف گوئی اور مخالفت کے آگے جم جانا جیسی خوبیاں جنہوں نے جواہر لال کو مقبول بنایا، اندراگاندھی کی طبیعت کا جوہر بھی تھیں یہ ضرور ہے کہ جواہر لال ان کے مقابلہ میں زیادہ متحمل دور اندیش اور انتظار کرنے والے تھے، اندراگاندھی بظاہر بے صبر اور ممکنہ عجلت کے ساتھ جو ہوسکے کر گزرنے پر یقین رکھتی تھیں اور ناسازگار حالات میں بھی دلیرانہ فیصلے کرکے ان پر ثابت قیام رہتی تھیں۔
نہرو اور اندراگاندھی میں جو فرق ہے وہ ایک کتاب اور اس کے حاصل کا فرق نظر آتا ہے جواہر لال نہرو نے جدید ہندوستان کو بنایا اور اندراگاندھی کو بھی پیدا کیا۔ لہذا اندرا گاندھی جس جمہوری نظام میں فیصلہ کن اقدامات کرنے کے قابل ہوسکیں اس کی ساری قوت اور استحکام جواہر لال کا پیدا کردہ تھا جنہوں نے ایک طرف پرانی اور ملی جلی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی تو دوسری جانب مغرب کی جدید سائنسی فضا میں ذہنی تربیت حاصل کی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی مکمل مثال آنے والی نسلیں پیش نہ کرسکیں۔
یہ المیہ اس دور کے پورے ہندوستان کا نظر آتا ہے وہ مہاتما گاندھی پنڈت جواہر لال نہرو یا مولانا ابوالکلام آزاد ہوں ان کو آنے والی نسل اپنا آئیڈیل نہ بنا سکی کیونکہ ان کا ضمیر مشرق، مغرب، مغل اور انگریزوں کی ان اعلیٰ روایات سے اٹھا تھا جو ۱۹۴۷ء میں دیکھتے ہی دیکھتے برباد ہوگئیں مگر نہرو نے ہار نہ مانی بلکہ انہوں نے ایک نئی دنیا کی تعمیر کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے بہت سی روایتوں کو زندہ رکھنا چاہا۔ حتی الامکان نئی روایتوں کو قائم کرنے سے نہرو نے پرہیز کیا اور اپنے انفرادی ماضی کی دلکشی کو سلامت رکھنے کی کوشش کرتے رہے یہی نہرو کی عظمت کا رازہے۔
پنڈت نہرو کو یاد کرتے وقت یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مشرق ومغرب ، قدیم وجدید، عصری اور دوامی اقدار کی آمیزش سے ان کی شخصیت وجود میں آئی تھی آج یوم وفات پر ان کو سب سے بہتر خراج عقیدت اسی طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ جن اقدار کے وہ علمبردار تھے یا جس رواداری کا وہ زندگی بھر مظاہرہ کرتے رہے قوم اس کو مستحکم بنائے اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرے جو ہندوستان کے شاندار ماضی کی خصوصیات کو برباد کرکے ملی جلی تہذیب کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر سے ہندوستان کی ہزاروں سالہ رواداری کی تاریخ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔