No Woman, No Drive 670 سعودی عرب میں ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاجاً خواتین نے اپنی ویڈیوز آن لائن پوسٹ کی ہیں، لیکن ایک مزاحیہ وڈیو نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
اس اختتام ہفتہ پر کچھ سعودی خواتین، جن کی تعداد یوں تو کچھ خاص نہ تھی، لیکن انہوں نے انتہائی جرأت کا مظاہرہ کیا اور سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرائیونگ کی، بہت سی خواتین نے اپنی ڈرائیونگ وڈیوز یوٹیوب پر بھی اپ لوڈ کی۔ لیکن ایک سعودی کامیڈین کی جانب سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ایک وڈیو کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد کی جانب سے پسند کیا اور سراہا جارہا ہے۔
”نو وومین، نو ڈرائیو“ (نہ خواتین ہوں گی، نہ وہ ڈرائیو کریں گی) کے عنوان سے یوٹیوب پر پوسٹ ہونے والی اس وڈیو کو دودن سے بھی کم عرصے میں تیس لاکھ افراد نے دیکھا۔ یہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں یوٹیوب کی انتہائی مقبول وڈیو بن گئی ہے، اور دنیا بھر میں ساؤتھ افریقہ سے ڈینمارک اور ڈینمارک سے کینیڈا تک اس وڈیو کو بہت زیادہ پسند کیا جارہا ہے۔ اپنی اس وڈیو کی وضاحت کرتے ہوئے 26 برس کے کامیڈین ہشام فقیہہ صرف ایک لفظ کہتے ہیں، اور وہ ہے ”پاگل پن“۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ”دو دن سے میرے ذہن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ جو کچھ میرے اردگرد ہورہا تھا، میں اپنے ذہن کو اس سے الگ نہیں کرسکتا تھا۔“
اس طنزیہ وڈیو کو بوب میرلے کی دھن ”نو وومین، نو کِرائی“ (نہ خواتین ہوں گی، نہ وہ روئیں گی) پر الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ڈرائیونگ پر مرکوز کردیا گیا ہے۔ اسے ہشام اور ان کے ساتھیوں نے تلفاز 11 نامی پروڈکشن ہاؤس میں تیار کیا، جہاں وہ خصوصاً مزاحیہ وڈیوز اپنے آن لائن ناظرین کے لیے تیار کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کی مخالفت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، خواتین کی بڑی تعداد اپنے اوپر عائد اس پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں، جس سے قدامت پرست طبقہ سخت پریشان ہے۔اس طبقے کی پریشانی کس قدر بڑھ چکی ہے، اس کا اندازہ ایک قدامت پرست مذہبی رہنما شیخ الہیضان کے سبق نامی ایک ویب سائٹ پر شایع ہونے والے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈرائیونگ سے خواتین کی بیضہ دانی ovaries کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ قدامت پرست طبقے کے سخت گیر نمائندے شیخ صالح نے یہ تبصرہ اس موقع پر کیا تھا، جب سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے سرگرم تنظیم ”وومن ٹو ڈرائیو“ کے کارکنوں نےاس حوالے سے اپنی جدوجہد میں تیزی پیدا کردی تھی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق شیخ الہیضان کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر فوری ردعمل سامنے آیا، اور بہت سے سعودی باشندوں نے یہ کہہ کر ان کا مضحکہ اڑایا کہ انہوں نے ”ایک عظیم سائنسی دریافت“ کی ہے۔
بعض افراد نے تو یہ سوال بھی اُٹھایا کہ انہوں نے طب، شریعت یا حماقت میں سے کس کا مطالعہ کررکھا ہے؟
سعودی عرب کی مذہبی پولیس ”امربالمعروف و نہی عن المنکر“ کے سربراہ نے جمعرات انیس ستمبر کو رائٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا قانون شریعت کے کسی بھی متن میں موجود نہیں ہے۔
اس ماہ کے ابتدائی عشرے میں سعودی عرب شوری کونسل کی اعلیٰ مشاورتی باڈی نے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دینے کی حمایت کی تھی۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ سفارش شوریٰ کونسل کی تین خواتین اراکین کی طرف سے شوریٰ کونسل کے ذمہ داران کو پیش کیے گئے مطالبے کا شرعی وملکی قوانین اور ملک میں ڈرائیونگ کلچر سے متعلق دستیاب مواد کا جائزہ لینے کے بعد کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کی مشاورتی شوریٰ کونسل کی تین خواتین ارکان نے اس مطالبے پر مبنی ایک یادداشت پیش کی تھی کہ قدامت پسندی کے رجحانات کی حامل ریاست میں خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے۔
شوریٰ کونسل کی ان تین خواتین کا یہ مطالبہ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑیاں چلانے پر دیرینہ پابندی کے خلاف سعودی عرب میں سرگرم سماجی کارکنوں کی کوششوں کے بعد سامنے آیا تھا۔
شوری کونسل کی خاتون رکن لطیفہ الشالان نے ایک عالمی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ کونسل کی دو اراکین ساتھی حیا المانی اور منیٰ المشیت کے ساتھ مل کر کونسل کی اعلیٰ مشاورتی باڈی سے مطالبہ کیا تھا کہ شریعت اور ٹریفک قوانین کے مطابق خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان کے گاڑی چلانے پر عاید پابندی ختم کی جائے۔
شالان کا کہنا تھا ”سعودی عرب میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس سے خواتین کے گاڑی چلانے کی ممانعت کی گنجائش نکلتی ہو، یہ پابندی صرف اور صرف قدیم روایات کی وجہ سے رائج ہے۔“
انہوں نے مزید کہا ”سعودی خواتین نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہ سعودی خواتین سعودی حکومت سے لے کر اقوام متحدہ تک اعلیٰ درجوں پر فائز ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی جاتی۔“
اس سال مارچ کے مہینے میں تین سعودی شہریوں کی طرف سے کونسل میں ایک درخواست دائرکی گئی تھی، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی ڈرائیو کرنے پرعائد پابندی پر بحث کی جائے۔ کیونکہ پوری دنیا میں صرف سعودی عرب ہی ایسا ملک ہے جس میں خواتین پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ شاہ عبداللہ نے سعودی خواتین کے سعودی معاشرہ میں کردار کو محدود کرنے سے انکار کرتے ہوئے 2011 ءمیں سعودی خواتین کو 2015 ءمیں ہونے والے مقامی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑا ہونے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی تھی۔
عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خاتمے کے لیے جاری مہم گزشتہ اختتام ہفتہ کو اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی اور اطلاعات کے مطابق 60 سے زائد خواتین نے گاڑیاں چلا کر احتجاجی مہم میں حصہ لیا تھا۔ گوکہ ان اطلاعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تاہم انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی ویڈیوز میں چند خواتین کو ضرور گاڑی چلاتے دیکھا گیا۔
اس سے قبل جمعہ کو سعودی وزراتِ داخلہ کے ترجمان منصور الترکی نے خواتین ڈرائیوروں کی مہم کے بارے میں سعودی حکومت کا سخت موقف واضح طور پر بیان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ان کے حمایتیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے اس کارروائی کی وضاحت نہیں کی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے یہ سخت انتباہ جدہ میں مذہبی رہنماؤں کے احتجاج کے بعد جاری کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرہ کرنے والے قدامت پرست مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ”سعودی حکام خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہے ہیں۔“
سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ سے روکنے کے لیے کوئی قانون نہ ہونے باوجود بھی وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے درخواست نہیں دے سکتی ہیں۔ خواتین کی ڈرائیونگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پابندی کی وجہ سے خاندانوں پر ڈرائیور رکھنے کی صورت میں اضافی معاشی بوجھ پڑتا ہے اور خواتین اپنے روزمرہ کے امور بھی انجام نہیں دے سکتی ہیں۔
اس ہفتے کے اوائل میں دارالحکومت ریاض کی شاہی عدالت میں سو قدامت پرست علما نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اس مہم کی مذمت کریں کیونکہ یہ عورتوں کی سازش اور ملک کے لیے خطرہ ہے۔
لیکن اسے معاملے پر 1990 میں ہونے والے دوسرے احتجاجی مظاہرے پر حکام کے رویّے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میں سخت گیر موقف رکھنے والے لوگ اب بہت کم ہیں۔
سعودی عرب میں ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاج کی اس حالیہ لہر کے دوران درجنوں خواتین نے اپنی ویڈیوز آن لائن پوسٹ کی ہیں، جن میں انہیں مختلف سعودی شہروں میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب سعودی معاشرے کا چلن تبدیل ہو رہا ہے اور اب مردوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد اس پابندی کے خاتمے کے حق میں ہے۔