پونے۔ورلڈ کپ کی ممکنہ اور بی سی سی آئی کے گریڈ سسٹم سے باہر آف اسپنر ہربھجن سنگھ میں ٹیم انڈیا میں واپسی کرنے کی بھوک باقی ہے۔پنجاب کیلئے موجودہ رنجی سیشن میں پہلا میچ کھیل رہے ہربھجن نے کہا میں نے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی آس نہیں چھوڑی ہے۔ میری پنجاب کیلئے پرعزم ہے۔ میں اس لیے کھیل رہا ہوں کیونکہ میں کرکٹ سے محبت کرتا ہوں۔ ٹربنیٹر کے نام سے مشہور ہربھجن نے کہامیں یہ سوچ سمجھ کرٹرافی نہیں کھیل رہا کہ مجھے آئی پی ایل کیلئے فٹ رہنا ہے۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے کہ میں یا دیگر سینئر کھلاڑی آئی پی ایل کے پیش نظر رنجی ٹرافی کھیل رہے ہیں ۔آف اسپنر نے کہامیرے رنجی ٹرافی کھیلنے کا ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ میں ہندوستانی ٹیم میں واپسی کرنا چاہتا ہوں۔ اس کیلئے مجھے رنجی ٹرافی سمیت گھریلو ٹورنامنٹوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ہربھجن نے اس میچ سے قبل اپنا آخری میچ ایک ماہ پہلے وجے ہزارے ٹرافی فائنل کی شکل میں کھیلا تھا۔ ان کی دیودھر ٹرافی۔ رنجی کے دو راؤنڈ اور دلیپ ٹرافی سے غیر حاضری کے بعد قیاس آرائی لگ رہی تھیں کہ یا تو وہ کھیل میں اپنی دلچسپیوں کو کھو بیٹھے ہیں یا پھر آئی پی ایل کے پیش نظر چند رنجی میچ کھیل رہے ہیں۔
وہیں دوسری جانب آف اسپنر ہربھجن سنگھ کا خیال ہے کہ پچ پر اتنی گھاس نہیں چھوڑی جانی چاہئے کہ 120 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینک والا بولر بھی میلکم مارشل نظر آنے لگے۔یہاں مہاراشٹر کے خلاف رنجی ٹرافی میچ کھیل رہے ہربھجن نے کہا ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کی تیز گیندبازوں کیلئے مددگار پچیں بنانے کی پہل سے درمیانے تیز گیندبازوںکو جھوٹھا اعتماد مل رہا ہے اور اس سے اسپنروں کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہربھجن نے ساتھ ہی کہا کہ ہندوستانی بلے بازسطحی اسپنر گیند بازی کھیلنے سے محروم ہو رہے ہیں۔آف اسپنر نے کہا مجھے وکٹ پر گھاس چھوڑنے کو لے کر کوئی شکایت نہیں ہے لیکن ہمیں اتنی بھی گھاس نہیں چھوڑنی چاہئے کہ 120 کلومیٹر کی معمولی رفتار کا گیندباز میلکم مارشل لگنے لگ جائے۔ اس بات میں کوئی دقت نہیں کہ 120 کلومیٹر کی رفتار کو گیند باز 125 کلومیٹر کی رفتار پھینکنے لگے لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسے کھیلنا ہی ناممکن ہو جائے ۔ ہربھجن نے ساتھ ہی کہا ہماری وکٹ ایسے گیند بازوں کو کھیلنے میں مشکل بناتی ہیں۔ ان میں سے کچھ گیندباز سیشن میں 50 وکٹ نکال لیتے ہیں۔ آپ ان کی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لیکن جب ایسا گیندباز بین الاقوامی کرکٹ کیلئے منتخب کیا جاتا ہے تو اس کے ہلکے سے خشک وکٹ پر قلعی کھل جاتی ہے۔ تب تو گیند بلے باز تک ہی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ہربھجن نے کچھ طنز کے ساتھ کہا میرا خیال ہے وکٹ پہلے دن کی صبح تیز گیند بازوں کو مدد کرے لیکن گیند باز کے دماغ میں یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ وہ ٹاس جیت گئے اب تو میرا ہی دن ہے۔ گیند بازوں کیلئے مدد ہونی چاہئے لیکن اگر بلے باز ٹک کر کھیلے تو وہ بڑا اسکور بنا سکے۔ چوتھے۔ پانچویں دن اسپنروں کا کردار اہم ہو جانا چاہئے۔ آف اسپنر نے کہا آپ متحرک وکٹ پر کھیلیں لیکن ایسے وکٹ پر نہیں کھیلیں جہاں اوسط درجے کا گیندباز ڈرائونا لگنے لگے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم کھیل کو صحیح سمت میں نہیں لے جا رہے ہیں بلکہ گیندباز کو جھوٹا اعتماد دے رہے ہیں۔ ایسے وکٹ پر کوئی گیند بازی کر سکتا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے کہ زبردست ٹرن لیتی وکٹ پر کوئی وکٹ لے سکتا ہے۔
اسی طرح تھوڑی سی سوئنگ نکالنے والا اور لائن لینتھ پر گیند ڈالنے والا بولر ایسے وکٹ پر قہر برپا سکتا ہے ۔لیکن کھیل کو چیلنج بنانے کے لئے آپ کو ویسی حالات دیکھنی ہوگی جیسی کہ ٹسٹ کرکٹ میں ہوتی ہے ۔ٹیم انڈیا سے طویل عرصے سے نظر انداز چل رہے ہربھجن نے کہا اگر آپ یہاں کی وکٹ جیسی گھسیالی پچ پر رنجی ٹرافی میچ کھیلیں گے تو اسپنر پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پچ پر کوئی درار نہیں دکھائی دیتی ہے اور پیروں کے نشان نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے ٹاس جیتا اور انہیں 210 پر سمیٹ دیا۔ میچ کے تیسرے دن بھی گیند موو کر رہی ہے۔ وکٹ کے نیچے اتنی نمی ہے کہ یہ چاروں دن گرین رہے گی۔ ہربھجن نے ساتھ ہی کہاایسی پچ پر آپ کہاں سے اسپنرکھیلنے کیلئے لائیں گے۔ جس وقت اسپنر گیند بازی کیلئے آتا ہے تو بلے باز کو لگتا ہے کہ رن بنانے کا موقع آ گیا ہے۔ کوئی چیلنج نہیں ہے۔ کوئی اسپن نہیں ہے اور کوئی اچھال نہیں ہے۔ اسپنروں کیلئے کچھ تو ہونا چاہیئے۔ ٹیم کے الیون میں ہر کے پاس کھیلنے کیلئے کچھ ہونا چاہئے جو اب نہیں ہے ۔