نئی دہلی۔ 3 مئی (یو این آئی) وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے آج آسام میں تشدد کے واقعات کی سخت مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔تشدد کے واقعات میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ ترون گگوئی سے بات کی اور ان سے امن و امان بحال کرنے کو کہا۔انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لئے تمام اقدامات کررہی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی سے لڑنے کے تئیں حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے اس تشدد پر گہرے صدمے اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے ہمارے شہریوں میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کی ایک بزدلانہ کوشش ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ہر طرح کی دہشت گردی سیلڑنے کے تئیں عہد بند ہے.
محترمہ مایاوتی نے یہ بھی اندیشہ ظاہر کی کہ ریاست میں ایس پی کے اقتدار رہتے ہوئے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں۔گزشتہ انتخابات کے دوران بی ایس پی کو ریاست میں اقتدار میں ہونے کا فائدہ حاصل تھا لیکن اس بار انہوں نے ایس پی کی حکومت ہونے کی وجہ سے سرکاری مشنری کے بے جا استعمال کا اندیشہ ظاہر کیا ہے اور الیکشن کمیشن سے زیادہ سے زیادہ سلامتی اہلکار دستیاب کرانے کی گزارش کی ہے۔اگر محترمہ مایاوتی زیادہ لوک سبھا سیٹ حاصل کرنے یا پھر اپنی حالت کو جوں کا توں برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو سہ فریقی پارلیمنٹ ہونے کی صورت میں وہ مرکز میں حکومت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔گزشتہ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی نے پھولپور ، امبیڈکر نگر، بستی، سنت کبیر نگر، مدوہی ، دیوریا، لال گنج، گھوشی، سلیم پور اور جون پور حلقوں میں فتح حاصل کی تھی ۔
وزیراعظم نے آسام تشدد کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی
-
Previous
تجزیہ ظفر آغا سن 2014 کے لوک سبھا چناﺅ اب آخری مرحلوں میں ہیں ۔ اگلا پولنگ راونڈ 7 مئی کو ہو رہا ہے جس میں بہار کے چہار حلقوں اور اتر پردیش میں دس پارلیمانی حلقوں میں پولنگ ہونی ہے۔ اس کے علاوہ آندھرا پردیش جو اب سیماندھرا اورتلنگانہ بن چکا ہے اور اترا کھنڈ و بنگال میں بھی 7 مئی کو پولنگ ہوگی۔ ہماچل پردیش اور جموں وکشمیر میں بھی اسی روز پولنگ ہونی ہے۔ اتر پردیش ، اتراکھند، بہار، بنگال اور وادی کشمیر اور تلنگانہ اس اعتبارسے اہم علاقے ہیں کہ یہاں مسلم ووٹر کثیر تعداد میں ہے اوران صوبوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور سیکولر پارٹیوں بالخصوص کانگریس پارٹی کے درمیان کانٹے کی ٹکر کے امکان ہیں۔ اب جن جگہوں پر چناﺅ ہو نے ہیں ان میں سے ان صوبوں میں ہونے والے چناﺅ ہی مستقبل میں ہندوستان کا سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی رنگ و روپ طے کریں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے گجرات ماڈل کو چناوی مرکز بنا کر نہ صرف ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کے سیکولر سماج کے خدو خال کو چیلنج کر دیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو گجرات کی طرح غریب کی ہندوستان کی ریاست میں کوئی جگہ اور حق نہیں ہوگا۔ اس اعتبار سے آخری دو مرحلوں اور بالخصوص 7 مئی کو ہونے والے چناﺅ میں ووٹر کو یہ طے کرنا ہے کہ آیاوہ ایک ایسا سیکولر ہندوستان چاہتے ہیں کہ جس میں حکومت غریب کو برابری کی نگاہ سے دیکھے یا ایک ایسا ہندوستان چاہتے ہیں کہ جس میں گجرات ماڈل کے طرز پر ملک میں فسادات ہوں، مسلم نسل کشی ہو اور ریاست محض بڑے بڑے سرمایہ داروں کے مفاد میں کام کرئے۔ اس اعتبار سے بہار، اتر پردیش ، اترا کھنڈ، بنگال، کشمیر اور تلنگانہ کے ووٹر کے کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ ہے۔ اگر ان صوبوں میں مودی اور اس کے ہمنوا (مثلاً سماندھرا میں چندرا بابو نائڈو) کامیاب ہو گئے تو ہندوستان میں اقلیتوں کا نہ صرف مستقبل خطرے میںہوگا بلکہ ان کی جان و مال بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے افراد مثلاً شبنم ہاشمی ، تیستا سیتلواڈاور مہیش بھٹ جیسے افراد اسی خطرے کے مد نظر ان حلقوں میں مستقل جگہوں پر گھوم گھوم کر ملک میں سیکولرزم کی بقا کے لئے اپیل کررہے ہیں۔ شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ سن 2014 کے چناﺅ آزاد ہندوستان کے لئے انتہائی اہم چناﺅ بن چکے ہیں۔ ان کے بقول ان چناﺅ میں تمام سیکولر طاقتوںکو ایک جٹ ہو کر ہرحلقے میں اسی کو ووٹ ڈالنا چاہئے جو اپنے حلقے میں فرقہ پرست نمائندے کو ہرا سکے ۔ اس سلسلے میں سوئل سوسائٹی کے افراد مختلف علاقوں میں کمپین کر رہے ہیں اور عام ووٹر سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ خود گھر گھرجاکر فرقہ پرستی کے خطرے سے ووٹر کو آگاہ کریں اور ان کو سیکولر طاقتوں کو جیتانے کے لئے اپنا ووٹ بانٹنے سے روکیں۔ بقول شبنم ہاشمی اسی میں ملک اور عام آدمی کی بقا ہے۔