لکھنؤ۔ (بیورو)۔ پولیس بھرتی میں دھاندلی کاالزام عائد کرنے والے حزب مخالف پرآج اسمبلی میں وزیراعلیٰ نے زبردست حملہ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سبھی الزامات بغیر کسی ثبوت کے ہیں۔ اس سلسلہ میں بی جے پی کی تحریک کے سلسلہ انہوں نے کہاکہ یہ پارٹی فساد کرانے والی ہے ، یہ لوگ مورتی کو دودھ پلاتے ہیں ،افواہ پھیلانے میں ماہر ہیں۔ جنہوں نے انہیں اعداد و شمار دیئے ہیں کہ زیادہ تر امیدوار مین پوری، قنوج اور ایٹہ سے منتخب کئے گئے ہیں اس نے انہیں گمراہ کیا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ بھرتی کے عمل میں کوئی تفریق نہیں برتی گئی ہے۔ یہاں تک کہ کسی نے ہم سے بھی سفارش نہیں کی تھی۔ بھرتی بالکل غیر جانبدارانہ ہوئی ہے۔ بھرتی کے ابتدائی عمل سے لیکر مین امتحان اور جسمانی پیمائش تک کسی بھی رکن کے پاس کوئی شکایت نہیں آئی۔ آج اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ انہیں بھرتی غلط نظر آرہی ہے۔ جو پارٹی اسے لیکر مخالفت کر رہی ہے وہ بیالیس ہزار نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے بی ایس پی کو بھی ہدف تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ یہ بھرتی اسی عمل پر ہورہی ہے جس پر اس نے اپنی حکومت میں چھتیس ہزار سپاہیوں کی بھرتی کی تھی
پھر اسے اعتراض کیوں ہے۔
محکمہ داخلہ کی بجٹ تجاویز پر ہوئی بحث کو جواب دیتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہاکہ دیگر حکومتوں کی طرح نظم و نسق ان کی حکومت کی ترجیحات میں ہے۔ نظم و نسق پوری طرح کنٹرول میں ہے۔ آئندہ سال تک سبھی بنیادی ضروریات پوری ہو جانے کے ساتھ ہی ریاست کی پولیس سب سے بہتر ہو جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چالیس ہزار مزید پولیس اہلکاروں کی جلد بھرتی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے غیر موسمی بارش سے ہوئے نقصان کی وجہ سے مرنے والے کسانوں کے ورثاء کی راحت رقم پانچ لاکھ روپئے سے بڑھاکر سات لاکھ کرنے کا اعلان کیا۔ حزب مخالف رہنما سوامی پرساد موریہ نے کہاکہ ریاست میں جنگل راج ہے، افسر وزیر اعلیٰ تک کا حکم نہیں مانتا ہے۔ وزیر اعلیٰ میں نادانی اور بھولا پن ہے جس کا فائدہ افسر سے لیکر ان کے قریبی اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کی اسکیمیں کچھوے کی چال سے رام بھروسے چل رہی ہیں۔ اس پر وزیر اعلیٰ نے جواب دیا کہ کچھوا اور خرگوش کی کہانی آپ نے سنی ہوگی۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ جیت کچھوے کی ہی ہوتی ہے۔ بی جے پی کے سریش کھنہ نے پولیس بھرتی میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کے پردیپ ماتھر اور راشٹریہ لوک دل کے دلویرسنگھ نے بھی بحث میں حصہ لیا۔