جائزے سے منسلک محققین کا کہنا ہیکہ دوب چوں کی ولادت کے درمیان غیر مناسب وقفہ آٹزم کے خطرے کے ساتھ منسلک پایا گیا ہے۔ایک نئی تحقیق کے مطابق بچے کی ولادت کے ایک سال کے اندر دوسری بار حاملہ ہونے والی ماؤں کیبچوں میں آٹزم کی تشخیص کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔جائزے سے منسلک محققین کا کہنا ہیکہ دوب چوں کی ولادت کے درمیان غیر مناسب وقفہ آٹزم کے خطرے کے ساتھ منسلک پایا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق جن بچوں کی ولادت اپنے بھائی یا بہن کی پیدائش کے پہلے سال کے دوران میں ہوتی ہے وہ ڈیڑھ گنا زیادہ آٹزم میں مبتلا ہونے کے خدشے کا شکار پائے گئے۔جبکہ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بچوں کی پیدائش میں لمبا وقفہ بھی بچے کے لیے آٹزم کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے اور جو ب
چے اپنے بھائی یا بہن کی پیدائش کے ۵ برس بعد پیدا ہوتے ہیں ان میں آٹزم کی تشخیص کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔اس سے قبل ایک دوسری تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ایسی خواتین جن کے دو حمل کے دوران وقفہ کم تھا یا زیادہ لمبا وقفہ تھا، ان کے بچوں میں آٹزم یا قبل از وقت پیدائش کا خطرہ زیادہ تھا۔تحقیق کاروں کے مطابق بچوں کی ولادت کے درمیان دو سے پانچ برس کا درمیانی وقفہ ایک آئیڈیل وقفہ ہے جس میں کوئی اضافی خطرہ منسلک نہیں تھا۔اس نئی تحقیق سے وابستہ محققین نے پتا لگایا ہے کہ اگر بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ پانچ برس ہے تو ایسے بچے میں آٹزم کی تشخیص کا امکان۳۰ فیصد زیادہ تھا اور اگر بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ ۱۰ برس کا ہے توبچے میں آٹزم کا امکان۴۰ فیصد زیادہ ہو سکتا ہے۔تحقیق کاروں نے فن لینڈ میں ۱۹۸۷ء سے۲۰۰۵ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جس میں ایک تہائی بچوں میں آٹزم کی تشخیص ہوئی۔
محققین نے نیشنل رجسٹریشن کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے آٹزم کا شکار بچوں اورنارمل بچوں کے پیدائش کے وقفے کا آپس میں موازنہ کیا جبکہ دیگر محرکات جو آٹزم کی تشخیص سے لنک رکھ سکتے تھے، مثلاً والدین کی عمر، بچہ کا نمبر، والدین کی ہسٹری اور نفسیاتی عوارض وغیرہ کو بھی تجزیہ میں شامل کیا۔کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ محقق ڈاکٹر ایلن براؤن نے کہا کہ یہ تحقیق مزید ثبوت پیش کرتی ہے کہ جنیاتی عوامل کے علاوہ ماحولیاتی عوامل بھی حمل کے دوران اور پیدائش کی مدت کے قریب آٹزم میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آٹزم ایک معذوری کی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آٹزم کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ریسرچ سے منسلک ایک اور محقق ڈاکٹرچیزلیک پوستاوا نے متنبہ کیا ہے کہ نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ پیدائش میں وقفہ براہ راست آٹزم کی ایک وجہ ہے۔ بلکہ یہ ایک دلچسپ حقیقت تھی کہ آٹزم کی تشخیص کا خطرہ بچوں کی پیدائش کے کم وقفے اور زیادہ لمبے وقفے دونوں میں زیادہ تھا۔یہ تحقیق نفسیات سے متعلق امریکی رسالے ‘امریکن اکیڈمی آف چائلڈ اینڈ ایڈولیسینٹ’ میں شائع ہوئی ہے۔’نیشنل آٹزٹک سوسائٹی’ کے مطابق آٹزم ایک زندگی بھر کی اعصابی معذوری ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ حواسِ خمسہ یعنی محسوس کرنا، سماعت کی حس یا تو بہت حساس ہوتی ہیں یا یہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور ایسے بچوں کو لوگوں سے بات چیت کرنے اور زبان سمجھنے یا استعمال کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔
نیزآٹزم کی ‘اسپرجرز سینڈروم’ کا شکار بچے عموماً ذہین یا بے حد ذہین ہوتے ہیں لیکن انھیں اپنے پسندیدہ موضوعات پر ہی بات کرنا پسند ہوتا ہے۔ اکثر ایسے بچوں میں یاسیت اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ انھیں اپنے احساسات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔گو کہ اب تک اس نفسیاتی معذوری کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے تاہم آٹزم سے آگاہی کے اداروں اور اسپتالوں سے آٹزم سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہے جس سے بچے کی تربیت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔