ایک حالیہ بین الاقوامی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو وٹامن اے سپلیمنٹ دینے سے ان میں اندھے پن، بیماریوں اور اموات کی شرح کو قابل ذکر حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔یہ تحقیق یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور آغا خان یورنیورسٹی پاکستان نے کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بچوں کو وٹامن اے سپلیمنٹ دینے سے ان میں اموات کی شرح پچیس فیصد کم ہو جاتی ہے-
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ سپلیمنٹ خسرہ ا
ور ہیضے کی شرح میں بھی کمی کا باعث بنتا ہے۔تحقیق کاروں نے تجویز دی ہے کہ ایسے تمام بچوں کو یہ سپلیمنٹ دینا چاہیے جن کی خوراک میں وٹامن اے کی مناسب مقدار شامل نہیں- اس سپلیمنٹ کے فوائد اتنے واضح ہیں کہ ان کی موجودگی میں وٹامن اے اور نقلی دوا کے تقابلی جائزے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس مطالعے کے نتائج ۴۳آزمائشی تجربات پر مبنی ہیں جن میں کچھ بچوں کو وٹامن اے اور دیگر کو نقلی دوا یا کوئی بھی دوا نہیں دی گئی۔
تحقیقاتی نمونے میں چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے دو لاکھ صحت مند بچے شامل تھے جنہیں تقریباً ایک سال تک زیر مطالعہ رکھا گیا۔یہ تحقیق انیس ممالک میں کئی گئی اور اکثر ممالک کا تعلق ایشیا سے تھا- اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایوان میو ولسن ہیں جو یونیورسٹی آف اوکسفرڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشل پالیسی اینڈ انٹروینشن سے منسلک ہیں۔ڈاکٹر ایوان میو ولسن کا کہنا ہے کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک وٹامن اے کے دیگر ذرائع موجود نہ ہوں، متاثرہ بچوں کو وٹامن اے کے سپلیمنٹ دینے چاہییں-’وٹامن اے کی کمی کا شکار تمام بچوں کو یہ سپلیمنٹ دینے سے ہم سالانہ چھ لاکھ بچوں کو موت سے بچا سکتے ہیں اور جراثیمی بیماریوں کے بے شمار واقعات کی روک تھام کر سکتے ہیں- وٹامن اے سپلیمنٹس کی تیاری اور ان کا استعمال بہت موثر اور سستا ہے۔ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہو گی کہ اس کے فوائد دیرپا ہوں اور یہ پروگرام دیگر قومی پروگراموں کی نگرانی میں ہو۔
آغا خان یونیورسٹی پاکستان کے ڈویڑن آف ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے چئیرمین پروفیسر ذو الفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ وٹامن اے سپلیمنٹ پروگرام میں مؤثر اضافے کی ضرورت ہے۔’ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہو گی کہ اس کے فوائد دیرپا ہوں اور یہ پروگرام دیگر قومی پروگراموں کی نگرانی میں ہو-‘
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بصری اور مدافعتی نظاموں کو فعال اور معمول کے مطابق رکھنے کے لیے وٹامن اے ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا غذائی جزو ہے جو جسم خود پیدا نہیں کرتا لہٰذا غذا کے ذریعے اس کا حصول لازمی ہے۔ماہرین کے مطابق وٹامن اے کی کمی کئی اقسام کے انفیکشنز کا باعث بنتی ہے جن میں ہیضہ، خسرہ، ملیریا اور نظام تنفس کے انفیکشنز شامل ہیں- یہ بیماریاں بچوں میں اموات کا اہم سبب ہیں- عالمی ادارہ صحت کے ایک حالیہ تخمینے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے ایک ارب نوے لاکھ بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔