ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں ملٹی پل سکلیروسس (ایم ایس) بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ملٹی پل سکلیروسس وہ اعصابی بیماری ہے جو دماغ اور حرام مغز کو نشانہ بناتی ہے۔یہ نتائج ہزاروں یورپی نسل کے باشندوں کے ڈی این اے کی تحقیق کے بعد حاصل کیے گئے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والے وٹامن اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سائنس دان پہلے ہی اس پر کام کر رہے ہیں کہ کیا لوگوں کو اضافی وٹامن ڈی دینے سے ملٹی پل سکلیروسس کو روکا یا کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایم ایس ماحولیاتی اور جینیاتی عوامل کے باعث لاحق ہوتی ہے اور اس میں دماغ، اعصاب اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ دھوپ اور غذا سے آپ وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں کر پا رہے ہیں تو آپ کو اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔ وٹامن ڈی زیادہ مقدار میں لینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔دنیا بھر میں کی گئی تحقیق سے پہلے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ ملٹی پل سکلیروسس ان ممالک میں عام ہے جہاں دھوپ کم نکلتی ہے۔لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا سبب یہی ہے یا اس میں دوسرے عوامل بھی شامل ہیں۔صورتحال کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے کینیڈا کی میک گل یونیوسٹی کے محقق نے یورپی لوگوں کے ایک بڑے گروپ میں ایم ایس کے پھیلاو¿ کا موازنہ جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی کمی کا شکار اور عام وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں کیا۔
یہاں حکومت کی ہدایات موجود ہیں کہ لوگوں کو کتنا وٹامن ڈی لینا چاہیے ہے اور زیادہ لینے اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اگر لوگ ماہرین صحت سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچ رہے ہیں تو میں ان کی حوصلہ افزائی کروں گا۔
اس قسم کی جینیاتی تبدیلیاں بہت بے ترتیب ہوتی ہیں اس لیے قیاس یہی ہے کہ اس قسم کے تعلق پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔پلوس میڈیسن جرنل میں شائع تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ لوگوں میں بلڈپریشر کا کم ہونا وٹامن ڈی کا نشان ہے کہ یہ جینیاتی طور پر اس سے متاثر ہیں۔ عام افراد کے بہ نسبت جینیاتی طور پراس کے شکار افراد کو ملٹی پل سکلیروسس کے لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ملٹی پل سکلیروسس سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سوسان کول ہاس کا کہنا ہے کہ ’ملٹی پل سکلیروسس کے اسباب معلوم کرنے کے لیے بہت سارے سوالات کے جوابات اب تک نہیں ہیں۔ یہ بڑے پیمانے کی تحقیق جینیات کی پیچیدہ نوعیت کے معاملات اور ماحولیات کو بہتر انداز میں سمجھنے کی جانب ایک دلچسپ قدم ہے۔’یہاں حکومت کی واضح ہدایات موجود ہیں کہ لوگوں کو کتنا وٹامن ڈی لینا چاہیے اور زیادہ لینے اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اگر لوگ ماہرین صحت سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچ رہے ہیں تو میں ان کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ ‘
لندن کے امپیریل کالج کے امیونولوجی کے پروفیسر ڈینی آلٹمن کا کہنا ہے کہ ’وٹامن ڈی سستا اور محفوظ ہے اور ہم میں سے بہت سارے مکمل صحت مند ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنے جسم میں سیرم کی سطح کو مکمل رکھیں جس طرح ہمارے آبا و اجداد معتدل موسم میں باہر جاتے وقت بےلباس ہوتے تھے اور کھانے میں تیل والی مچھلی سمیت دیگر اقسام کے کھانے زیادہ استعمال کرتے تھے۔
’جبکہ وٹامن ڈی کو بڑھا کر ملٹی پل سکلیروسس کا علاج کرنے کی توقعات بہت زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اس تحقیق میں اس دلیل کو مضبوط کیا گیا ہے کہ وسیع پیمانے پر کھانوں میں معمول کے وٹامن ڈی کے اضافہ کو عوام کی صحت کے اقدامات میں روکا جائے۔‘حکومت اس بارے میں غور کر رہی ہے کہ برطانیہ کے ’کم دھوپ والے‘ علاقوں میں عوام کو اضافی وٹامن ڈی لینے کا مشورہ دیا جائے۔