نئی دہلی (بھاشا) رن بنانے کے تقریباً سارے ریکارڈ اپنے نام لکھواچکے سچن تیندولکر نے جب وقار یونس اور وسیم اکرم جیسے خطرناک تیز گیند بازوں والی پاکستانی ٹیم کے خلاف ۱۹۸۹ء میں ٹسٹ کرکٹ میں آئے تھے تب وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں اس سطح پر کھیل سکنے کی اپنی قابلیت پر شک ہونے لگا تھا۔ حال ہی میں جاری اپنی خود نوشت پلئنگ اٹ مائیوے میں تیندولکر نے لکھا ہے کہ ان کی پہلی ٹسٹ پاری ان کے لئے کس قدر دشوار گذار تھی انہوںنے اپنی کتاب میں لکھا کہ وہ آتشی امتحان سے کم نہ تھا۔ ٹسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی پاری میں میں و
سیم اور وقار کے سامنے تھا اور مجھے بلے بازی کی اپنی صلاحیت پر شک ہونے لگا۔ اور میرے اندر یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا میں کبھی بین الاقوامی سطح پر اچھا کھیل سکوں گا۔ انہوںنے آگے لکھا کہ میرا ٹسٹ کرکٹ میں داخلہ اس لئے اور بھی خاص ہوگیاتھا کہ کیونکہ ہم پاکستان کے خلاف پاکستان میں ہی کھیل رہے تھے اور ان کے پاس عمران خان ،وسیم اکرم ، وقار یونس ، عاقب جاوید جیسے تیزگیند باز تھے جبکہ مشتاق احمد اور عبدالقادر جیسے اسپنر بھی تھے اپنے پہلے دورے کے بارے میں تیندولکر نے بتایا کہ کیسے وسیم نے ان کا ٹسٹ کرکٹ میںاستقبال کیا تھا۔ انہوںنے کہا میں اوور کی تیسری گیند پر ان کے سامنے اسٹرائک پر تھا اور وہ گیند انہوںنے بائونسر پھیکی وسیم کی گیند بازی کو سمجھنے کی وجوہات مجھے پتہ تھیں کہ اگلی گیند یارکر ہوگی اور میں ذہنی طور سے اس کیلئے تیار تھا۔ تیندولکر نے لکھا کہ وسیم نے پھر بائونسر پھیکی جو میں نے چھوڑ دی ۔ میں یارکر کا انتظار کررہاتھا کہ میں پانچویں اور چھٹی گیند بھی بائونسر نکلی ۔اس اوور کے آخر میں میں نے خود سے کہا کہ ٹسٹ کرکٹ میں تمہارا استقبال ہے۔ اپنے دیرینہ مدمقابل پاکستان کے خلاف بین الاقوامی کرکٹ کے دبائو سے واقف تیندوکر نے بتایا کہ سیال کوٹ میں چھوتے ٹسٹ میں کیسے وقار کی گیند پر وہ لہولہان ہوگئے تھے انہوںنے کہا کہ میں نے اپنا پہلا رن بنایا تھا جب وقار نے ایک شاٹ گیند پھیکی جو مجھے لگا تھا کہ میری ٹھوڈی تک جائے گی۔ میں گیند کے اچھال کاا ندازہ نہیں لگا سکا اور وہ چھ انچ زیادہ اٹھ گئی اور میرے ہیلمٹ کے فلیپ پر لگی میری ناک پر وہ گیند جا لگی تیندولکر نے کہا کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور میرا سر بھاری ہوگیا اس کے بعد گیند سلیپ میں گئی اور میں دیکھنے لگا کہ گیند کہاگئی ہیں اسی وقت میں نے اپنی قمیص پر خون دیکھا انہوںنے کہا میں اس جھٹکے سے باہر آنے کی کوشش کررہا تھا کہ جاوید میاں داد کے تبصرے پر حیران رہ گیا وہ کہہ رہے تھے کہ ارے تجھے تو ابھی اسپتال جاناپڑے گا۔ تیری ناک ٹوٹ گئی ہے۔ حالانکہ وہاں ایک بینر پر لکھا تھا کہ بچے گھر جاکر دود ھ پی کر آ جس سے میری بیچنی اور بڑھ گئی تیندولکر نے ایک واقعہ کا ذکر کیا جب کراچی ٹسٹ میں سولہہ بر س کا یہ لڑکا نہ صرف ڈر گیا تھا بلکہ ہند پاک میچ سے وابستہ جذبات کا بھی اسے علم ہوا۔ انہوںنے کہا کہ بین الاقوامی کرکٹ میں میرا پہلا دن ڈرامے سے پر تھا اور ایک واقعہ تو کافی دلچسپ رہا لنچ کے بعد شلوار قمیص پہنے ایک داڑھی والا شخص میدان میں آگیا اور پاکستان آنے کیلئے کپل دیو کو برا بھلا کہنے لگا انہوںنے کہا کہ کپل کے بعد وہ مڈ آف میں کھڑے منوج پربھاکر کے پاس گیا پربھاکر کو برا بھلا کہنے کے بعد وہ کپتان شری کانت کے پاس گیا اور ہاتھا پائی کرنے لگا۔ انہوںنے کہا میں پوائنٹ پر فیلڈنگ کررہا تھا اور میں ڈر گیا کہ اگلا نمبر شائد میرا ہوگا اور میں ڈریسنگ روم کی طرف بھاگنے کو تیار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچ سے بھی زیادہ کچھ کھیلا جارہا تھا۔ تیندولکر نے لکھا ہے کہ انہیں کئی بار ہلکا بلا آزمانے کیلئے کہاگیا لیکن وہ انہیں کبھی راس نہیں آیا انہوںنے کہا میں نے کافی بھاری بلا استعمال کیا اور کئی بار مجھے ہلکا بلا آزمانے کیلئے حوصلہ دیاگیا۔ میں نے آزمایا بھی لیکن کبھی اس میں آسانی محسوس نہیں کی کیونکہ میرے پورے بلے کا سوئنگ اس وزن پر منحصر تھا جب میں کوئی ڈرائیو لگا رہا ہو تومجھے اس میں طاقت پیدا کرنے کیلئے وزن کی ضرورت ہوتی تھی۔ انہوںنے اس بارمیں بھی بتایا کہ بلے کو کس طرح پکڑنے چاہئے ۔ تیندولکر نے کہا کہ میں بلے کو ہاتھ کا ایک حصہ مانتا تھا۔ اور جب آپ ایسا ماننے لگے تو بدلائو کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سب سے اہم یہ تھا کہ میں بلے بازی کرتے ہوئے آسانی محسوس کررہا تھا ۔انہوںنے کہا کہ جب تک میں آسانی محسوس کررہا تھا تو یہ معنی نہیں رکھتا کہ میں کہا اور کس کے خلاف کھیل رہاتھوں ۔ آپ تکنیکی بدلائو کرکے خود کو آسان محسوس کرانے کا خطرہ لینے لگتے ہیں۔ تیندولکر نے نوجوان بلے بازوں کو زیادہ سے زیادہ تجربات سے بچنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ بلا آپ کے ہاتھ کا ہی ایک حصہ ہونا چاہئے اور اس مقام پر پہنچنے کے بعدآپ کو تکنیک میں کسی بدلائو کی ضرورت نہیں۔